ابراہیم جلیس کے طنز و مزاح
وزیر کی تہمد
کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے آدمی کو شوخیٔ تقدیر سے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چھوٹے آدمی کو بڑا روپیہ ملنا ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ اُسترا لگ جائے جس طرح بندر شیو بنانے کی کوشش میں اپنا سارا چہرے ’’لہولہان‘‘ کرلیتا ہے، اسی طرح چھوٹا آدمی بڑی دولت
دوسرے کی بیوی
میرے دوستوں کی بیویوں کو مجھ سے یہ شکایت ہے کہ میں اپنی بیوی کو ان سے ملنے نہیں دیتا، اور مجھے اپنے دوستوں کی بیویوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ صرف ملنے کے لیے میری بیوی سے نہیں ملتی ہیں بلکہ اپنی امارت کا رُعب جھاڑنے کے لئے میری بیوی کو اپنے ہاں بلاتی ہیں۔ میری
شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادب بالخصوص اردو ادب میں عورت کے ساتھ ادیب اور شاعر بڑا ظلم کرتے ہیں۔ اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ عورت کے سوائے دنیا میں کوئی مخلوق مظلوم نہیں آتی۔ میں جیسے جیسے دنیا کے ہر ادب بالخصوص اردو ادب کا گہرا مطالعہ کرتا
کھال میں رہو بیگم
ایک کلر کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ جاڑوں کا زمانہ تھا۔ دلہن نے شوہر سے فرمائش کی کہ مجھے ایک فرکوٹ خرید دو۔ بیوی نئی نئی تھی اور وہ اتفاق سے تنخواہ کا بھی دن تھا۔ شوہر فرمائش کو ٹال نہ سکا۔ وہ بازار میں فرکوٹ کی دکان پر پہنچے۔ بیوی نے کسی جانور کی کھال
بیمار کی باتیں
’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔ تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ تندرستی ہزار نعمت ہے گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ؛ تنگدستی بھی
پیار کی باتیں
(غریب کی جورو) اخباروں میں ایک دردناک خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’ایک شخص نے مالی پریشانیوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ صرف دو مہینے پہلے اس کی شادی ہوئی تھی لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اس میں صرف ایک کا گزارہ ہی بمشکل ہوتا تھا اور
دماغ چاٹنے والے
میرے ملاقاتیوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہے۔ مگر ان میں سے چند ملاقاتی ایسے ہیں جن کے بارے میں رہ رہ کر مجھے خیال آتا ہے کہ کاش ان سے میری ملاقات نہ ہوتی۔ یا کاش اب ان سے میری راہ و رسم منقطع ہوجائے۔ یہ ضرور ہے کہ پہلی بار جب میں کسی ملاقاتی سے ملتا
گھر داماد
ہمارے ایک دوست ’’بی۔ اے۔ پاس‘‘ ہیں۔ لیکن ’’بی بی پاس‘‘ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے پاس دوست بے روزگار ہونے کے علاوہ خوددار آدمی بھی ہیں، لہٰذا ’’گھر داماد‘‘ بننے کے لئے کسی طرح بھی تیار نہیں۔ چنانچہ ’’بی بی پاس‘‘ ہونے کا نہ سوال ہی
بیک ٹائی
آج سے پچاس سال آگے کا واقعہ ہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان تیسری بلکہ آخری جنگ عظیم چھڑگئی۔ یہ جنگ صرف ایک گھنٹے جاری رہی اور دونوں ملکوں نے دنیا میں جگہ جگہ دھما دھم ایٹم او مگاٹن بم برسائے۔ اس کے بعد نہ روس دنیا میں باقی رہا نہ امریکہ اور نہ
یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے
’’یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے‘‘ جب تک یہ مصرع میری نظر سے نہیں گزرا تھا، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بے چاری نازک اندام عورت کی گدّی سے یہ سیر ڈھائی سیر وزنی بالوں کی چوٹی کیوں لٹکی ہوئی ہے؟ لیکن اب جب بھی کوئی چوٹی یا چوٹیوں والی عورت مجھے
ٹاپ لیس بکنی
انگریزی زبان میں عورت کو مرد کا ’’بیٹر ہاف‘‘ (Betterhalf) یعنی ’’نصف بہتر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عورت کی اس تعریف بلکہ تعارف سے ہم اس وقت واقف تھے جب انگریزی زبان کچھ کچھ ہماری سمجھ میں آنے لگی تھی۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ، ’’عورت