امام بخش ناسخ کا تعارف
تخلص : 'ناسخ'
اصلی نام : شیخ امام بخش
پیدائش : 10 Apr 1772 | فیض آباد, اتر پردیش
وفات : 16 Aug 1838 | لکھنؤ, اتر پردیش
رشتہ داروں : امداد علی بحر (شاگرد), منیر شکوہ آبادی (شاگرد)
LCCN :n91080465
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
شیخ امام بخش ناسخ اردو غزل میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کو شاعری کے لکھنؤ اسکول کا بانی کہا جاتا ہے۔ لکھنؤ اسکول کا آغاز دراصل اس وقت کی برائے نام دلی سرکار سے تہذیبی، ثقافتی اور لسانی سطح پر آزادی کا اعلان تھا۔ سیاسی خود مختاری کا اعلان نواب غازی الدین حیدر پہلے ہی کر چکے تھے۔ شاعری کے حوالہ سےناسخ سے پہلے لکھنؤ میں دلی والے ہی راج کرتے تھے۔ سودا، سوز، میر اور مصحفی، اِن سبھی نے دہلی کے سیاسی اور معاشی انتشار سے تنگ آ کر پورب کا رخ کیا تھا۔ جہاں وہ ہاتھوں ہاتھ لئے گئے تھے۔
لیکن سیاسی خودمختاری کے بعد لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگی۔ لہٰذا جب ناسخ نے دہلی والوں کے معروف لب و لہجہ اور لفظیات سے ہٹ کر شاعری شروع کی تو لکھنؤ والوں کو اپنے خوابیدہ جذبہ کے اظہار کے لئے ایک آواز مل گئی اور ان کی دھوم مچ گئی۔ اس وقت مصحفی کے شاگرد آتش لکھنؤ میں دلّی کے اسلوب کی آخری بڑی یادگار تھے۔ ایسے میں فطری بات تھی کہ وہ اور ان سے زیادہ ان کے حامی اور شاگرد، ناسخ کی شاعرانہ بغاوت کی مزاحمت کرتے۔ نتیجہ یہ تھا کہ لکھنؤ میں ناسخ اور آتش کے حامیوں کے دو گروپ بن گئے۔ اس مسابقت کا مثبت پہلو یہ تھا کہ اس نے دونوں استادوں کی شاعری کو چمکا دیا۔ ہوا کا رخ بہرحال ناسخ کے ساتھ تھا۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس کی عمارت کو بلند کیا اور باقاعدہ ایک لکھنؤ اسکول وجود میں آ گیا اور اردو شاعری پر چھا گیا۔ اس اسکول کی پہچان نازک خیالی، پرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر زور تھی۔ جہاں تک زبان کی تظہیر کی بات ہے، ناسخ کو اس کا کریڈٹ دینا یا اس کے لیے ان کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ یہ کام بعد میں ناسخ کے شاگردوں نے کیا۔ شاعری ہمیشہ سے موٹے طور پر دو متوازی رجحانات میں بٹی رہی ہے۔ ایک وہ جو دماغ کو متاثر کرتی ہے اور دوسری وہ جو دل پر اثرکرتی ہے۔ دہلی میں بھی میر اور سودا کی شکل میں یہ دونوں رجحانات موجود تھے لیکن دونوں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کو گوارہ کرتے تھے بلکہ احترام بھی کرتے تھے۔ لکھنؤ میں بات دوسری تھی وہاں پرانی عمارت کو گرائے بغیر نئی عمارت نہیں بن سکتی تھی۔
ناسخ کی شاعری ان کی شخصیت کی عکاس تھی۔ والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور ان کو اک مالدار تاجر خدا بخش نے گود لے لیا تھا۔ ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم دلائی گئی۔ بعد میں وہ خدا بخش کی جائداد کے وارث بھی بنے۔ اس طرح ناسخ خوشحال اور فارغ البال تھے۔ شادی انہوں نے کی ہی نہیں۔ محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کو تین ہی شوق تھے۔ کھانا، ورزش کرنا اور شاعری کرنا۔ اور یہ تینوں شوق جنون کی حد تک تھے۔ ورزش کے ان کے شوق اور شاعری میں ان کے لب و لہجہ پر چوٹ کرتے ہوئے لکھنؤ کے ظریفوں نے انھیں پہلوانِ سخن کہنا شروع کر دیا اور یہ خطاب ان پر چپک کر رہ گیا۔
خیال رہے کہ ناسخ نے شاعری کی وہ طرح، جو لکھنؤ اسکول کے نام سے معروف ہوئی، کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں ڈالی تھی نہ ہی اس سے انھیں لکھنؤ کے نواب کی خوشنودی مطلوب تھی۔ اس کے برعکس، انھوں نے نواب کی طرف سے ملک الشعراء کا خطاب دئے جانے کی پیشکش خالص پہلوانی انداز میں یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی تھی کہ وہ کون ہوتے ہیں مجھے خطاب دینے والے، خطاب دیں تو سلیمان شکوہ یا انگریز بہادر۔ اور اس کے نتیجہ میں انھیں، غازی الدین حیدر کی وفات تک جلا وطنی بھی جھیلنی پڑی تھی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ناسخ نے جس طرز نو کی بنیاد ڈالی وہ ان کی اپنی پسند تھی، اس میں کسی خارجی دباؤ، ضرورت یا مصلحت کو دخل نہیں تھا۔ وہ کسی کے شاگرد بھی نہیں تھے کہ وہ ان کی طبع میں اصلاح کرتا۔ ہر طرح کی فکر اور بندش سے آزاد ناسخ نے کبھی وہ دکھ جھیلے ہی نہیں تھے جو دل کو گداز کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا عہد عام تعیش کا عہد تھا جس میں عزاداری بھی ایک جشن تھی۔ ایسے میں ناسخ کا لب و لہجہ لکھنؤ والوں کی ضرورت کے عین مطابق تھا جو جھٹ پٹ اپنا لیا گیا اور ناسخ لکھنؤ اسکول کے بانی قرار پائے۔
بہرحال، دہلی کی طرح لکھنؤ کا شیرازہ بھی بکھر جانے کے بعد، لکھنؤ اور دہلی اسکول کی تفریق دھیرے دھیرے مٹتی گئی اور شاعر دونوں سے آزاد ہو گئے۔ اودھ کی شان مٹ جانے کے بعد ناسخ کو "کوہ کندن و کاہ براوردن" والی، خیالی اور احساس و جذبہ سے عاری شاعری کرنے والوں کے زمرہ میں ڈال دیا گیا۔ موجودہ زمانہ میں شمس الرحمان فاروقی نے ناسخ کی شاعرانہ قدر کے از سر نو تعین کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے
ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کرکے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے ہیں وہ بے جوڑ الفاظ میں اپنی صناعی سے ربط پیدا کرکے قاری کو اک حیرت آمیز مسرت سے دوچار کرتے ہیں۔ ان کی بلند آہنگی ذہنوں کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اپنی خیال آفرینی میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرتے ہیں اور جب کہتے ہیں، "مرا سینہ ہے مشرق افتابِ داغ ہجراں کا۔ طلوعِ صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا" تو ایک بار بے اختیار منہ سے داد نکل ہی جاتی ہے۔ بلند آہنگی ناسخ کے کلام کا عام جوہر ہے جو دل کو نہ سہی دماغ کو ضرور متاثر کرتا ہے۔ ناسخ لفظوں کے پرستار تھے ان کے معنی ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ ان کی خاص توجہ لفظوں سے مضمون پیدا کرنے پر تھی لفظ ثقیل ہے تو ہوتا رہے، مضمون رکیک ہے تو ان کی بلا سے۔ خاک صحرا چھانتا پھرتا ہوں اس غربال میں* آبلوں میں کر دئے کانٹوں نے روزن زیر پا۔ یعنی کانٹوں نے پیر کے آبلوں میں سوراخ کر کے انہیں چھلنی بنا دیا ہے جن میں میں صحرا کی خاک چھانتا ہوں۔ کمال کا مضمون ہے! اثر کو گولی مارئے۔ اسی اسلوب میں ان کے قلم سے ایسے بھی شعر نکلے ہیں جن کی تعداد کم بھی نہیں، جنہیں آپ مصنوعی شاعری کہہ کر مسترد نہیں کر سکتے اور جو ناسخ کو غالب کے برابر تو ہرگز نہیں لیکن ان سے قریب ضرور کر دیتے ہیں۔ رکھتا ہے فلک سر پہ، بنا کر شفق اس کو*اڑتا ہے اگر رنگ حنا تیرے قدم کا۔ (مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا*کہ تیرے ہجر میں آتش برستی تھی گلستاں پر۔ غالب)۔ یہ انداز بیان اپنی بہترین شکل میں "معنی آفرینی" اور "تلاش مضمون تازہ" کی سند پاتا ہے جبکہ اپنی بد ترین صورتوں میں رکیک اور مبتذل ٹھہرتا ہے۔ گڑ گئے ہیں سیکڑوں شیریں ادا شیریں کلام*جا بجا ہوں چیونٹیوں کے کیوں نہ روزن خاک میں/ وصل کا دن ہو چکا جاتا نہیں ان کا حجاب*اے کبوتر باز جوڑے کے کبوتر کھول دے/ اڑ نہیں سکتی تری انگیا کی چڑیا اس لئے*جالی کی کرتی کا اس پر اے پری رومال ہے۔ افسوس کہ اسی طرح کے اشعار ناسخ کے شاگرد لے اڑے اور لکھنوی شاعری بدنام ہوئی۔ اور ناسخ کے مخالفوں کے لئے اک ہتھیار بن گئے۔ ناسخ نے عربی کے ثقیل الفاظ اپنے کلام میں استعمال کرکے اپنی شاعری کو فصاحت کے مسلمہ معیاروں سے نیچے گرا دیا۔ ناسخ اپنے معاشرہ کا عکس تھے لہٰذا ان کے کلام میں بھی اس معاشرہ کی خوبیوں اور خرابیوں کی جلوہ گری ہے، معاشرہ نمائشی تھا اس لئے ناسخ کا کلام بھی لفظوں کی نمائشی سطح کا اسیر بن گیا اور احساس کی حرارت یا جذبوں کی گرمی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے ہیں لیکن اس میں روح پھونک پانے سے عاجز رہتے ہیں۔
بہرحال ناسخ کے کلام کا ایک حصہ سادہ بھی ہے یہ اس رنگ سے جدا ہے جس کے لئے وہ مشہور یا بدنام ہیں۔ آپ میں آئیں، جائیں یار کے پاس*کب سے ہے ہم کو انتظار اپنا/میں خوب سمجھتا ہوں مگر دل سے ہوں ناچار*اے ناصحو بے فائدہ سمجھاتے ہو مجھ کو/ہر گلی میں ہے سائل دیدار*آنکھ یاں کاسہ گدائی ہے (کاسہ چشم لے لے جوں نرگس*ہم نے دیدار کی گدائی کی۔ میر)/عشق تو مدت سے اے ناصح نہیں*مجھ کو اپنی بات کا اب پاس ہے(ایک ضد ہے کہ جسے پال رہے ہیں ورنہ*مر نہیں جائیں گے کچھ اس کو بھلا دینے سے۔ ظفر اقبال)۔ ان کواپنے شعری اسلوب پر ناز ضرور تھا لیکن وہ میر، سودا اور درد کے عقیدتمند بھی تھے۔
ضرورت ہے کہ ناسخ کے اچھے کلام کو یکجا کر کے عام قاری کے سامنے پیش کیا جائے۔ کلام جو ہم پسند کرتے ہیں اور جو نا پسند کرتے ہیں دونوں ناسخ کے ہی ہیں۔ میر صاحب کا کلیات بھی آج کی پسند ناپسند کے اعتبار سے فضول شعروں سے بھرا پڑا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ میر کا وہ کلام بھی جو آج کے قاری کے لئے فضول ہے، شعری عیوب سے پاک ہے۔ ناسخ کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی پھر بھی وہ ہمدردی سے پڑھے جانے کے مستحق ضرور ہیں۔
موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n91080465