اقبال اشہر قریشی محض 43 سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے تاہم اس کم عرصے میں انہوں نے ودربھ کی جدید شاعری کے خزانے میں اتنا کچھ سمودیا کہ ان کا نام فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم عمری کے باوجود وہ پختہ ذہن کے مالک تھے۔ ان کا احساس اور جذبہ پوری طور پر پختہ اور میچیور تھا۔ ان کے ہم عصر عبدالرحیم نشترؔ، مدحت الاختر اور غیور جعفری کی صحبت نے ان کی شعرگوئی کی فطری صلاحیت کو صیقل کیا۔ چنانچہ توقع کے مطابق انہوں نے جدید لب و لہجہ اختیار کیا۔ اقبال اشہرؔ کے کلام میں معنوی گہرائی اور گیرائی ملتی ہے۔ عصری حسیت اور اپنی ذات کے حوالے سے معاشرتی اور تہذیبی اقدار کا ذکر قاری کو متوجہ کرتا ہے۔ لفظ اور معنی میں ہم آہنگی ان کے کلام کی اہم خصوصیت ہے۔ ڈاکٹر مدحت الاختر نے ان کے کلام کو یکجا کر لیا ہے جو ’’بے صدا فریاد‘‘ کے نام سے بہت جلد منظر عام پر آجائے گا۔