اقبال عظیم
غزل 26
اشعار 30
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مزاحیہ شاعری 1
نعت 5
تصویری شاعری 1
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ_گے خواب ہو جاؤ_گے افسانوں میں ڈھل جاؤ_گے اب تو چہروں کے خد_و_خال بھی پہلے سے نہیں کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ_گے اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا سرخ شعلوں سے جو کھیلو_گے تو جل جاؤ_گے دے رہے ہیں تمہیں تو لوگ رفاقت کا فریب ان کی تاریخ پڑھو_گے تو دہل جاؤ_گے اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگ_مرمر پہ چلو_گے تو پھسل جاؤ_گے خواب_گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ_گے تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو بھیڑ میں سست چلو_گے تو کچل جاؤ_گے ہم_سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو ٹھوکریں کھاؤ_گے تو خود ہی سنبھل جاؤ_گے تم ہو اک زندۂ_جاوید روایت کے چراغ تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ_گے صبح_صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ_گے