اقبال حسن آزاد کے افسانے
دنیاداری
’’عورت دنیادار ہوتی ہے۔ اس کے پاس بہت سارا سامان ہوتا ہے بچے ہوتے ہیں۔ اس کی خودداری ہوتی ہے، انا ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔ کوئی داب نہ دے کوئی کچھ کر نہ دے اس لیے کبھی بھی کسی ایسی برتھ پر بیٹھنے کی کوشش نہ کرنا جس پر پہلے سے کوئی ایسی عورت بیٹھی ہو جو
مرد
’’اگر شوہر بستر پر دوسری جانب کروٹ بدل کر سونے لگے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیوی اب اپنی کشش اور جاذبیت کھوتی جا رہی ہے۔ یا کسی دوسری عورت کا سایہ اس پر پڑ گیا ہے اور نہیں تو اب وہ عورت کے قابل نہیں رہا۔‘‘ راحیلہ کی بات سن کر شگفتہ سناٹے میں آ گئی۔
نگوڑی
وہ بوڑھی عورت ایک ایک سے پوچھتی پھرتی تھی ’’بابو! مجسٹریٹ صاحب کا گھر کون سا ہے‘‘ مگر اس وسیع و عریض کالونی میں اس کی بات سننے والا کوئی نہ تھا۔ کشادہ لیکن شکستہ سڑک کے دونوں اطراف جدید ماڈل کے مکانات یہاں سے وہاں تک کھڑے تھے۔ ہر مکان کے گرد چہار دیواری
کاٹنے والے، جوڑنے والے
یہ قصہ سن انیس سو چھیالیس کا ہے۔ جمن میاں کی بیچ بازار میں ایک چلتی پھرتی ٹیلرنگ شاپ تھی۔ ان کی دکان پر کئی کاریگر کام کرتے تھے۔ خودجمن میاں گردن میں فیتہ لٹکائے رہتے۔ شوکت میاں کا کام کپڑوں کو کاٹنا تھا۔ رحمت میاں آنکھوں پر موٹا چشمہ لگائے سوئی
بندوبست
چشم زدن میں اس نے اپنا بوسیدہ جمپر اتارا اور اپنی دونوں ٹانگوں کو پھیلاکر جمپر کو ران کے بیچوں بیچ رکھ کر یوں رگڑا جیسے کچھ پونچھ رہی ہو۔ پھر اس نے جمپر کو الگنی پر ٹانگ دیا اور پیڑ کی طرح سیدھی کھڑی ہوگئی۔ وہ مادرزاد برہنہ تھی۔ آنگن میں بلب روشن تھا
دھند میں لپٹی ایک صبح
اس بار سردیاں کچھ زیادہ ہی دیر کے لئے رک گئی تھیں۔ جنور ی ختم ہونے کو آ رہا تھا مگر ٹھنڈ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ شمالی علاقوں میں بھاری برف باری کا سلسلہ جاری تھا۔مغرب سے آنے والی سرد ہوائیں چہار سو چکراتی پھرتیں۔ فجر کے وقت دھند کی چادر کبھی کبھی
رشتہ
’’اگر کوئی پوچھے کہ میرا تم سے کیا رشتہ ہے تو کہنا کہ وہی جو پھول کا خوشبو سے، بادل کا بارش سے، گیت کا سنگیت سے اور چاند کا رات سے ہے۔ وہی۔۔۔ وہی۔۔۔ جو ہوا کا سانسوں سے اور دل کا دھڑکن سے ہے۔ اگر ہم کسی سماجی اور مذہبی بندھن میں نہیں بندھے تو کیا ہوا،
سوکھی ندی اور پیار کا پودا
اسے اپنی بیوی سے محبت نہیں تھی مگر وہ اسے اچھی لگتی تھی۔ اس کے بال کالے، گھنے اور لمبے تھے۔ پیشانی سفید اور بلند تھی۔بڑی بڑی سی بیباک آنکھیں، ستواں ناک، بھرے بھرے سے یاقوتی لب جو پکار پکار کر کہتے آؤ ہمیں چوس لو۔ لیکن جب ان ہونٹوں سے نازیبا کلمات نکلنے
اوس کے موتی
ماسٹر صاحب نے کال بیل دبائی۔ دروازہ کھلا اور وہ اپنی مخصوص جگہ پر جا کر بیٹھ گئے۔سجا سجایا ڈرائنگ روم، پرسکون ماحول اور روح میں تازگی پیدا کرنے والی خنکی۔ باہر کی گرم ہوا جیسے کہیں گم ہو گئی تھی۔ انہوں نے جیب سے رومال نکالا اور پیشانی پر آئے پسینے
پورٹریٹ
آبادی سے تھوڑی دور ہٹ کر جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اسے گھنے جنگلوں سے خوف آتا۔ رام دین مالی کا لڑکا جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا اسے لے کر جنگل کی سمت نکل جاتا۔ جہاں تک جنگل چھدرا رہتا اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی اسے بڑا لطف آتا مگر جیسے