عصمت چغتائی کے افسانے
لحاف
جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیواروں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کو خود اپنے
امربیل
بڑی ممانی کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا کہ سارے خاندان کو شجاعت ماموں کی دوسری شادی کی فکر ڈسنے لگی۔ اٹھتے بیٹھتے دلہن تلاش کی جانے لگی۔ جب کبھی کھانے پینے سے نمٹ کر بیویاں بیٹیوں کی بری یا بیٹیوں کا جہیز ٹانکنے بیٹھتیں تو ماموں کے لیے دلہن تجویز کی جانے
چوتھی کا جوڑا
سہ دری کے چوکے پر آج پھر صاف ستھری جازم بچھی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی کھپریل کی جھریوں میں سے دھوپ کے آڑے ترچھے قتلے پورے دالان میں بکھرے ہوئے تھے۔ محلے ٹولے کی عورتیں خاموش اور سہمی ہوئی سی بیٹھی تھیں۔ جیسے کوئی بڑی ورادات ہونے والی ہو۔ ماؤں نے بچے چھاتیوں سے
جوانی
جب لوہے کے چنے چب چکے تو خدا خدا کر کے جوانی بخار کی طرح چڑھنی شروع ہوئی۔ رگ رگ سے بہتی آگ کا دریا امنڈ پڑا۔ الھڑ چال، نشہ میں غرق، شباب میں مست۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کل پاجامے اتنے چھوٹے ہو گئے کہ بالشت بالشت بھر نیفہ ڈالنے پر بھی اٹنگے ہی رہے۔ خیر
بچھو پھوپی
جب پہلی بار میں نے انہیں دیکھا تو وہ رحمان بھائی کے پہلے منزلے کی کھڑکی میں بیٹھی لمبی لمبی گالیاں اور کوسنے دے رہی تھیں۔ یہ کھڑکی ہمارے صحن میں کھلتی تھی اور قانونا اسے بند رکھا جاتا تھا کیوں کہ پردے والی بی بیوں کا سامنا ہونے کا ڈر تھا۔ رحمان بھائی
جڑیں
سب کے چہرے فق تھے گھر میں کھانا بھی نہ پکا تھا۔ آج چھٹا روز تھا۔ بچے اسکول چھوڑے گھروں میں بیٹھے اپنی اور سارے گھر والوں کی زندگی وبال کیے دے رہے تھے۔ وہی مارکٹائی، دھول دھپا، وہی اودھم اور قلابازیاں جیسے ۱۵اگست آیا ہی نہ ہو۔ کمبختوں کو یہ بھی خیال
بدن کی خوشبو
کمرے کی نیم تاریک فضا میں ایسا محسوس ہوا جیسے ایک موہوم سایہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں چھمن میاں کی مسہری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سائے کا رخ چھمن میاں کی مسہری کی طرف تھا۔ پستول نہیں شاید حملہ آور کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ چھمن میاں کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
ہندوستان چھوڑ دو
’’صاحب مرگیا‘‘، جینت رام نے بازار سے سودے کے ساتھ یہ خبر لاکر دی۔۔۔ ’’صاحب! کون صاحب؟‘‘ ’’وہ کانڑیا صاحب تھانا۔‘‘ ’’او کانا صاحب۔ جیکسن۔۔۔ چہ، بے چارا۔‘‘ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ کائی لگی پرانی جگہ جگہ سے کھونڈی بتیسی کی
ایک شوہر کی خاطر
اور یہ سب کچھ بس ذرا سی بات پر ہوا۔۔۔ مصیبت آتی ہے تو کہہ کر نہیں آتی۔۔۔ پتہ نہیں وہ کون سی گھڑی تھی کہ ریل میں قدم رکھا اچھی بھلی زندگی مصیبت ہوگئی۔ بات یہ ہوئی کہ اگلے نومبر میں جودھ پور سے بمبئی آرہی تھی سب نے کہا۔۔۔ ’’دیکھو پچھتاؤگی مت جاؤ۔۔۔‘‘
کنواری
اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ لفٹ خراب ہونے کی وجہ سے وہ اتنی بہت سی سیڑھیاں ایک ہی سانس میں چڑھ آئی تھی۔ آتے ہی وہ بےسدھ پلنگ پر گرپڑی اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔ میں خود خاموش رہنےکے موڈ میں تھی۔ مگر اس کی حالتِ بد دیکھ کر مجھے پریشان
گھونگھٹ
سفید چاندنی بچھے تخت پر بگلے کے پروں سے زیادہ سفید بالوں والی دادی بالکل سنگ مرمر کا بھدا سا ڈھیر معلوم ہوتی تھیں۔ جیسے ان کے جسم میں خون کی ایک بوند نہ ہو۔ ان کی ہلکی سرمئی آنکھوں کی پتلیوں تک پر سفیدی رینگ آئی تھی اور جب وہ اپنی بے نورآنکھیں کھولتیں
دو ہاتھ
’’رام اوتار خاکروب کی ماں کو تو پیٹ بھرنے کے لئے دو ہاتھوں کی ضرورت تھی۔ دنیا خواہ کچھ بھی کہے۔‘‘ رام اوتار لام پر سے واپس آ رہا تھا۔ بوڑھی مہترانی ابا میاں سے چٹھی پڑھوانے آئی تھی۔ رام اوتار کو چھٹی مل گئی۔ جنگ ختم ہو گئی تھی نا! اس لئے رام اوتار
بھابی
بھابی بیاہ کر آئی تھی تو مشکل سے پندرہ برس کی ہوگی۔ بڑھوار بھی تو پوری نہیں ہوئی تھی۔ بھیا کی صورت سے ایسی لرزتی تھی جیسے قصائی سے گائے مگر سال بھر کے اندر ہی وہ تو جیسے منہ بند کلی سے کھل کر پھول بن گئی جسم بھر گیا۔ بال گھمیرے ہوگئے۔ آنکھوں میں ہرنوں
جنازے
میرا سر گھوم رہا تھا۔۔۔ جی چاہتا تھا کہ کاش ہٹلر آ جائے اور اپنے آتشیں لوگوں سے اس نامراد زمین کا کلیجہ پھاڑدے۔ جس میں ناپاک انسان کی ہستی بھسم ہوجائے، ساری دنیا جیسے مجھے ہی چھیڑنے پر تل گئی ہے، میں جو پودا لگادوں مجال ہے کہ اسے مرغیوں کے بےدرد پنجے
ننھی کی نانی
ننھی کی نانی کا ماں باپ کانام تو اللہ جانے کیا تھا۔ لوگوں نے کبھی انہیں اس نام سےیاد نہ کیا۔ جب چھوٹی سی گلیوں میں ناک سڑسڑاتی پھرتی تھیں تو بفاطن کی لونڈیا کے نام سے پکاری گئیں۔ پھر کچھ دن ’’بشیرے کی بہو‘‘ کہلائیں پھر ’’بسم اللہ کی ماں‘‘ کےلقب سے یاد
چھوئی موئی
آرام کرسی ریل کے ڈبے سے لگادی گئی اور بھائی جان نے قدم اٹھایا، ’’الہٰی خیر۔۔۔ یا غلام دستگیر۔۔۔ بارہ اماموں کا صدقہ۔ بسم اللہ بسم اللہ۔۔۔ بیٹی جان سنبھل کے۔۔۔ قدم تھام کے۔۔۔ پائنچہ اٹھاکے۔۔۔ سہج سہج، بی مغلانی نقیب کی طرح للکاریں۔ کچھ میں نے گھسیٹا
مغل بچہ
وہ مرتے مرگیا مگر مغلیہ شہنشاہیت کی ضد کو بر قرار رکھا۔ فتح پور سیکری کے سنسان کھنڈروں میں گوری دادی کا مکان پرانے سوکھے زخم کی طرح کھٹکتا تھا۔ کگیا اینٹ کا دو منزلہ گھٹا گھٹا سا مکان ایک مار کھائے روٹھے ہوئے بچے کی طرح لگتا تھا۔ دیکھ کر ایسا معلوم
پہلی لڑکی
جب صبح ہی صبح جھکی ہوئی نظروں سے ماتھے پر ذرا سا آنچل کھینچ کر حلیمہ نے بیگم کو سلام کیا تو ان کی باچھیں کھل گئیں، خیر سے صاحبزادے کی طرف سے جو جان کو دھگدا لگا ہوا تھا۔ وہ تو دور ہوا۔ فورا دریائے سخاوت میں ابال آگیا چھ جوڑے جو اسی مبارک موقعے کے لیے
بڑی شرم کی بات
رات کے سناٹے میں فلیٹ کی گھنٹی زخمی بلاؤ کی طرح غرا رہی تھی۔ لڑکیاں آخری شو دیکھ کر کبھی کی اپنے کمروں میں بند سو رہی تھیں۔ آیا چھٹی پر گئی ہوئی تھی اور گھنٹی پر کسی کی انگلی بے رحمی سے جمی ہوئی تھی۔ میں نے لشتم پشتم جا کر دروازہ کھولا۔ ڈھونڈی چھوکرے
ساس
سورج کچھ ایسے زاویہ پر پہنچ گیا کہ معلوم ہوتا تھا کہ چھ سات سورج ہیں جو تاک تاک کر بڑھیا کے گھر میں ہی گرمی اور روشنی پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تین دفعہ کھٹولی دھوپ کے رخ سے گھسیٹی، اور اے لو وہ پھر پیروں پر دھوپ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھمادھم
بھول بھلیاں
’’لفٹ رائٹ، لفٹ رائٹ۔ کویک مارچ!‘‘ اڑا اڑادھم! فوج کی فوج کرسیوں اور میزوں کی خندق اور کھائیوں میں دب گئی اور غل پڑا۔ ’’کیا اندھیر ہے۔ ساری کرسیوں کا چورا کیے دیتے ہیں۔ بیٹی رفیعہ ذرا ماریو تو ان مارے پیٹوں کو۔‘‘ چچی ننھی کو دودھ پلارہی تھیں۔ میرا
بہو بیٹیاں
یہ میری سب سے بڑی بھابی ہیں۔ میرے سب سے بڑے بھائی کی سب سے بڑی بیوی۔ اس سے میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میرے بھائی کی خدا نہ کرے بہت سی بیویاں ہیں۔ ویسے اگر آپ اس طرح سے ابھر کر سوال کریں تو میرے بھائی کی کوئی بیوی نہیں، وہ اب تک کنوارا ہے۔ اس کی
اپنا خون
سمجھ میں نہیں آتا، اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں؟ وہاں سے جب چھمی بھولے سے اپنی کنواری ماں کے پیٹ میں پلی آئی تھی اور چار چوٹ کی مار کھانے کے بعد بھی ڈھٹائی سے اپنے آسن پر جمی رہی تھی اور اس کی میانے اسے اس دنیا میں لانے کے بعد اپلوں کے تلے دباتے
بیڑیاں
’’تو یہ ہیں تمہاری قبر آپا۔۔۔ لا حول و لا قوۃ وحید نے اچھا بھلا لمبا سگریٹ پھینک کر دوسرا سلگا لیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو جمیلہ اس سے بری طرح لڑتی اسے یہی برا لگتا تھا کہ سگریٹ سلگالی جائے اور پی نہ جائے بلکہ باتیں کی جائیں۔ جب سلگائی ہے تو پیو۔ دھواں
ننھی سی جان
’’تو آپا پھر اب کیا ہوگا؟‘‘ ’’اللہ جانےکیا ہوگا۔ مجھے تو صبح سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘، نزہت نے کنگھی میں سے الجھے ہوئے بال نکال کر انگلی پر لپیٹنا شروع کیے۔ ذہنی انتشار سےاس کے ہاتھ کمزور ہوکر لرز رہے تھے اور بالوں کا گچھا پھسل جاتا تھا۔ ’’ابا سنیں گے
یہ بچے
ایک زمانہ تھا جب میرا خیال تھا کہ دنیا میں بچے کے سب سے بڑے دشمن اس کے ماں باپ اور بھائی بند ہوتے ہیں۔ وہ اس کے دل کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بیجا زبردستیوں سے اس کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کو کچل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بجائے مکمل