جاوید زیدی کا تعارف
تخلص : 'جاوید'
اصلی نام : سید جاوید اختر زیدی
پیدائش : 09 Jan 1949 | بجنور, اتر پردیش
رشتہ داروں : سید اختر رضا زیدی (والد), عدیل زیدی (بھائی), عروج اختر زیدی (بھائی)
شاعری کو شاعر کی ذات کےبغیر سمجھنے کی کوشش جزو کو کل پر فوقیت دینے کی کوشش کے مترادف ہے اور یہ بھی غلط نہیں کہ شاعری سے شاعر کی زندگی، اس کی سوچ و فکر اور اس کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں اور اس صورت میں کہ شاعر خود اپنے بارے میں معلومات فراہم کر رہا ہو، شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس پس منظر کے ساتھ مجھے سخنور اول تا چہارم کے دوران شعرا و شاعرات کے بارے میں لکھنے کے لیے ان کی شاعری سے بڑی مدد ملی۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے بعض جگہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور بعض جگہ مصلحتاً، مجبوراً یا ضرورتاً پہلو تہی کی ہے۔ پھر ان کی شاعری کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا میرا منصب بھی نہیں، لیکنجو شاعری دل کے عمیق گوشوں میں جا اُترتی ہے اس کے بارے میں اظہار نہ کرنا بھی بددیانتی سمجھتی ہوں۔
سید جاوید اختر زیدی نجیب آباد، ضلع بجنور، ہندوستان میں ۹؍جنوری ۱۹۴۹ء کے دن پیدا ہوئے۔ قلمی نام جاوید زیدی اختیار کیا۔ انگریزی زبان کے معلم ہیں۔ ان کے گھر کا ماحول شاعرانہ و ادیبانہ تھا۔ ان کے والد پروفیسر سید اختر رضا زیدی مرحوم ادیب، شاعر اور مورخ اور سندھ کے معروف معلّمین (Educators) میں تھے۔ جاوید کا رجحان شروع ہی سے ادب اور خصوصاً شعر کی طرف رہا۔ اردو ادب کے ساتھ ساتھ انگریزی اور یوروپی ادب اور پھر امریکی ادب سے بھی انھیں سروکار رہا اور تادمِ تحریر ہے۔
پاکستان میں محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ صحافت اور تشہیر (Journalism & Advertising) سے بھی خاص تعلق رہا۔ امریکہ میں پچھلے اٹھارہ (۱۸) برس سے بحیثیت معلم ہائی اسکولوں اور کالجوں سے وابستگی رہی اور ہے۔ جاوید کہہ رہے تھے... ’’جو وقت غمِ روزگار سے بچ جاتا ہے وہ غم دوست کی نذر ہوجاتا ہے۔ ادبی و شعری محافل اور ریڈیو، مشاعروں اور اخبارات کے لیے لکھنا، پاکستاناور بھارت سے آئے اخبارات و رسائل و کتب کا مطالعہ بھی اچھی خاصی توجہ اور وقت چاہتا ہے، لیکن واقعہ ہے کہ جس دل جمعی کے ساتھ، سکونِ قلب کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا کام کرنے کو جی چاہتا ہے، وہ میسر نہیں۔ بہر حال پھر بھی غنیمت ہے کہ:
’’میسر ہیں ہمیں یہ روز شب بھی‘‘
مضمون نگاری، نظم و غزل اور خطوط پسندیدہ اصنافِ ادب ہیں۔ یوں میرؔ، غالبؔ، اقبالؔؒ، فیضؔ اور جوشؔ سے لے کر سلطانہمہر تک کے فن کو سرمۂ چشمکرتا ہوں، نئے شعرا اور ادبا کا مطالعہ کرنا اور انھیں تلاش کر کے متعارف کرانا میرا مشغلۂ جاں ہے۔ غزل کے مکتبۂ فکر میں میرؔ سے لے کر اپنے جون ایلیا تک اور نظم میں انیسؔ سے لے کر جوشؔ تک سب ہی قلم کاروں سے متاثر ہوں۔ دراصل نام نہیں، مجھے کام زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ خود نوشت، تاریخ، مجموعۂ سخن، میری توجہ و دلچسپی خاص طور پر مطمحِ نظر رہتی ہے۔
میرا مجموعۂ کلام ’’صلیبِ ہجرت‘‘ زیر ترتیب ہے۔ دعا فرمائیےکہ زندگی کی صلیب سے اترنے سے پہلے میرے اشعار افقِ ادب پر نمودار ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوسکاتوکیا فرق پڑے گا؟
میری زندی کا اہم واقعہ وہ دن ہے جب فرسٹ ایئر کالج میں ’’بزم ادب‘‘ قائم کرنے پر مجھے جوشؔ صاحب کی صدارت میں پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ زندی کی یادگاروں میں سے ہے۔ جوشؔ صاحب نے کہا...’’میاں صاحب زادے، آپ کی مسیں نہیں بھیگیں، یہ آپ کن جان جوکھوں میں پڑگئے۔‘‘ وہ دن اور آج تک بقول انیسؔ:
’’عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں‘‘