ڈاکٹر جوہی بیگم کی ولادت الہ آباد کے ایک متوسط دین دار گھرانے میں ہوئی۔ والد مرحوم انیس احمد صدیقی گورمنٹ پریس میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر (پرنٹنگ) کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ بچپن سے ہی ڈاکٹر جوہی کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ اپنے کورس کی کتابیں پڑھنے کے بعد خود سے بڑے بھائی بہنوں کی کتابیں بھی بصد شوق پڑھا کرتیں۔ شعر و شاعری سے فطری لگاو تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا شعر نو عمری میں کہا جب وہ ساتویں جماعت میں تھیں، لیکن کبھی بھی اپنے اشعار جمع نہیں کیے۔ جو بھی اشعار کہے ان میں سے اکثر ضائع ہو گئے۔ احباب کے بے حد اصرار پر گزشتہ ایک سال سے جب وہ سوشل میڈیا پر بالخصوص فیس بک پر متحرک ہوئیں تو ان کے اشعار عوام کے سامنے آئے اور بہت کم وقت میں ان کی شناخت ایک معیاری شاعرہ کے طور پر قائم ہو گئی۔ جب ملک کے معیاری جرائد میں آپ کے کلام شائع ہوئے تو آپ کے پاس ملک کے طول و ارض سے مشاعرے میں شرکت کے لیے دعوت نامے آنے لگے لیکن ڈاکٹر جوہی کی خلوت پسند طبیعت نے مشاعروں میں شرکت کو گوارہ نہ کیا۔
ڈاکٹر جوہی کی تعلیمی لیاقت اردو سے پی ایچ ڈی ہے۔ پیشے سے آپ ایک معلمہ ہیں اور الہ آباد کے معروف ادارے الہ آباد ڈگری کالج میں درس و تدریس کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ مادری زبان اردو کے ساتھ قومی زبان ہندی پر بھی آپ کو یکساں عبور حاصل ہے۔ آپ کے تنقیدی مضامین جہاں ایک طرف اردو کے معیاری رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں وہیں آپ کے ہندی مضامین بھی ہندی کے معروف رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ اردو سے ہندی اور ہندی سے اردو ترجمہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہی نہیں آپ کو انگریزی، عربی اور سنسکرت پر بھی خاصی دسترس حاصل ہے۔
ڈاکٹر جوہی صرف ایک شاعرہ ہی نہیں بلکہ دقیق النظر ناقد، افسانہ نگار اور کالم نویس بھی ہیں۔ آپ نے متعدد افسانے اور ڈرامے تحریر کیے ہیں جن میں سے کئی معروف اخبار و جرائد میں شائع بھی ہوئے ہیں۔ سماجی موضوعات و حالات حاضرہ پر آپ اخباروں میں کالم بھی لکھتی رہتی ہیں۔ آپ کے کالم پڑھ کر آپ کے زود مطالعہ اور وسیع النظر ہونے کا پتہ ملتا ہے۔ سماجی، سیاسی، معاشی، تاریخی گویا شاید ہی کوئی گوشہ ہو جس پر آپ گہری نظر نہ رکھتی ہوں۔ بالفاظ دیگر کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر جوہی ایک ہمہ گیر شخصیت کی مالک ہیں۔