کلیم الدین احمد کے مضامین
اردو ادب میں طنز و ظرافت
(۱) زندگی درد و غم کا دوسرا نام ہے۔ ہماری زندگی ہی ہماری مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اس دنیا میں ستائے جانے کے لئے لائے گئے ہیں۔ انسان کمزور ہے اور اس کا ماحول لاپروا۔ انسان حساس ہے اس لئے اس کادل بہ آسانی رنج و الم کا نشانہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دل
تنقید کیا ہے؟
(۱) تمہید یوں کہنے کو تو تنقید کا سرمایہ بہت کچھ ہے، لیکن یہ سرمایہ کچھ یوں ہی سا ہے، اندر سے کھوکھلا۔ آپ نے سینٹسؔ بری کی بھاری بھرکم کتاب ’’تنقید کی تاریخ‘‘ دیکھی ہوگی اور نقادوں کی لمبی چوڑی فہرست دیکھ کر مرعوب بھی ہوں گے۔ ایسے بزرگ، نامی،
روایات اور اردو شاعری
اردو شاعری کو دو مختلف روایات ورثہ میں ملیں۔ ایک طرف تو فارسی روایات تھیں جن میں عربی رنگ آمیزی تھی اور دوسری جانب بھاشا اور سنسکرت روایات جن کی جڑیں ہندوستان کی فطری، معاشرتی، مذہبی خصوصیات میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دونوں چشمے مل کر ایک چوڑا
تنقید اور ادبی تنقید
(۱) اس میں ایک بات یہاں اور جوڑ لیجئے کہ بچے کی تنقیدی صلاحیت واستعداد بھی اسی طرح بالکل فطری اور طبعی انداز سے خود بخود بڑھتی اور ابھرتی ہے، یہ صلاحیت بڑی دھیمی رفتار سے ابھرتی ہے اور بالکل غیرمرئی ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں
الفاظ اور شاعری
الفاظ اور شاعری میں ایک ناگزیر ربط ہے۔ اردو شعرا اس ربط سے سراسر بیگانہ نظر آتے ہیں۔ شاعری کی منزلیں طے کرنے کے لئے الفاظ کی رہبری کی ضرورت ہے۔ اگر الفاظ رہنما نہ ہوں تو قدم آگے نہیں بڑھ سکتا ہے لیکن رہنما کو منزل مقصود سمجھ لینا کم عقلی کی دلیل ہے۔
داستان کیا ہے؟
’’داستان طرازی منجملہ فنون سخن ہے، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لئے اچھا فن ہے۔‘‘ غالب ’’ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا رسول بادشاہ، چڑیا لائی مونگ کا دانہ، چڑالایا چانول کا دانہ، دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔‘‘ ان یا ان جیسے لفظوں سے
ریڈیو اور کلچر
(۱) سائنس کی ترقی نے ساری دنیا ہی بدل دی ہے لیکن یہ سائنس کوئی نئی چیز نہیں۔ جب انسان نے پہلی مرتبہ گردوپیش کی چیزوں سے اپنے آرام، اپنی ترقی کے لئے کام لینا شروع کیا، اس وقت سائنس نے جنم لیا۔ اس ترقی کی رفتار بہت سست رہی۔ نئی معلومات میں اضافہ ہوتا
شعریت کیا ہے؟
سرورؔ صاحب فرماتے ہیں، ’’معاصر کے حصۂ نظم میں شعریت کم ہے۔ شعریت سے میری مراد وہ رسیلاپن نہیں ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے بلکہ وہ جذبات کی شدت، وہ والہانہ کیفیت، وہ بات کو اس طرح کہنے کی عادت کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے چونک اٹھے اور اس کے سامنے
اردو کی عشقیہ شاعری
’’اردو کی عشقیہ کی شاعری‘‘ جناب رگھوپتی سہائے فراقؔ کی تصنیف ہے۔ فراقؔ صاحب ان چند پڑھے لکھے لوگوں میں ہیں جو ادب اور ادبی مسائل پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرتے ہیں اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ اس موضوع پر اپنے رنگ کی غالباً
فن کا ایک نظریہ
فن مصنوعی شے نہیں ہے۔ یہ غیر فطری پیداوار نہیں ہے جسے ہماری فطری ابتدائی تحریکوں کے غیرفطری انسداد کے ذریعہ وجود میں لایا جاتا ہے۔ یہ لازمی طور پر انسانی پیداوارہے۔ حیوانی دنیا میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے اور یہ کلچر کا سب سے زیادہ قابل قدر جز ہے
تحلیل نفسی اور فن
(الف) یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تحلیل نفسی ’’ان عوامل کو آشکار کر سکتی ہے جو ایک انسان کو فنی اعتبار سے موجد بناتے ہیں۔‘‘ اگر تحلیل نفسی کچھ نہ کرکے صرف یہی کرتی تو وہ ادبی تنقید اور انسانیت دونوں کی طرف سے قابل مبارکباد ہوتی۔ دنیا بہت دنوں سے اس حیرت