کوثر چاند پوری کے افسانے
بے زبان کا قتل
شہر میں عام طور پر ہراس پھیلا ہوا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں پر زندگی کے بہتے ہوئے دھارے رک گئے ہیں۔ بازار بند ہے، کل ہڑتال کااعلان ہو چکا تھا۔ پوسٹر اب بھی دیواروں پر چپکے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں دو چار دوکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ لڑکے انھیں بند کرانے کی سر توڑ کوشش
منشی جی
خدا جنت نصیب کرے ’’منشی جی‘‘ بھی، ہمارے قصبہ میں عجیب چیز تھے۔ دوسری خصوصیات سے قطع نظر کرکے اگر صرف وضع پر ہی نظر کی جائے تو منشی جی اس زمانہ کے عجائبات میں داخل ہو سکتے ہیں۔ سر پر چوگوشہ ٹوپی جو چند یا کو بھی بمشکل چھپا سکتی تھی اور جس کے دونوں طرف
شیخ جی
ہم اپنے حلقہ احباب میں چپراسی کی ضرورت کا اظہار کرکے بالکل ایسے مطمئن ہو گئے جیسے کوئی صاحب پانیر میں اشتہار دے کر بےفکر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پانیر کے صفحات میں ’’ضرورت‘‘ دیکھ کر جو صاحب بھی خالی جگہ کے لیے درخواست بھیجیں گے وہ ہر لحاظ سے مکمل
انتقام محبت
(۱) جمیل کی عمر ابھی چودہ سال سے متجاوز نہ ہوئی تھی لیکن اس کے خیال میں جس قدر بلندی اور ارادوں میں جس درجہ رفعت تھی اس کا اندازہ مشکل سے ہو سکتا ہے۔ جمیل جس قدر حسین اور خوش اندام تھا اس سے کہیں زیادہ متین و سنجیدہ۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ
زندگی اور موت کے درمیان
سیٹھ دھرم پال پر گزشتہ تین روز سے دل کے دورے پڑ رہے تھے۔ کئی مرتبہ چھاتی میں شدید درد ہو چکا تھا۔ ان کی عمر پچاس سے کچھ اوپر ہی تھی، ساری آرزوئیں پوری ہو چکی تھیں۔ سو برس تک زندہ رہنے کی خواہش کو اب وہ خود ناممکن خیال کرنے لگے تھے۔ موجودہ بیماری کے دوران
مصنف کی بیوی
(۱) حسن، جس وقت الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری لے کر نکلا ہے، اس کی عمر ۲۴ سال سے زیادہ نہ تھی۔ اس کم عمری میں جو حیرت انگیز ترقی اس نے کی اس کا واحد سبب صرف حسن کی کوہ وقار طبیعت اور اس کا غیر متزلزل عزم و ارادہ تھا۔ وہ اس عمر میں نہ صرف ایم
رام لیلا
گھر سے چلتے وقت اس نے رانی کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے ہی پھیلی ہوئی بے رونق آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ دونوں نگاہوں میں محبت کی بیکسی اور مجبوری کا احساس تھا۔ رانی کے رخساروں پر مژمردگی چھائی ہوئی تھی، ہونٹ پپڑائے ہوئے تھے۔ چھ مہینے کا لاغر مگر خوبصورت