خدیجہ مستور کے افسانے
ٹھنڈا میٹھا پانی
یہ افسانہ جنگ کے ماحول میں زندگی گزارتی ایک عورت کی روداد بیان کرتا ہے۔ جنگ ختم ہو چکی ہے، لیکن اسے ایسا لگتا ہے کہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ وہ مسلسل بندوق کی گولیوں کے چلنے اور بموں کے پھٹنے کی آوازیں سنتی رہتی ہے۔ اس کا شوہر بیوی بچوں کی حفاظت کے لیے انہیں لاہور سے ملتان بھیج دیتا ہے۔ ملتان میں بھی وہی جنگ کا ماحول ہے۔ رات میں کہیں قریب میں ہی بم پھٹتا ہے۔ صبح وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اس جگہ کو دیکھنےجاتی ہے جہاں رات کو بم گرا تھا ۔وہ دیکھتی ہے کہ بم گرنے سے اس جگہ ایک بہت گہرا گڈھا بن گیا ہے، جس کے پاس بیٹھا ایک بوڑھا چندہ جمع کر رہا ہے کہ اس گڈھے میں ٹھنڈے میٹھے پانی کا ایک کنواں بنایا جا سکے۔
سہرا
ایک ایسی بیوہ عورت کی کہانی، جو شب و روز محنت کرکے اپنے بچوں کو کامیاب بناتی ہے۔ بیٹیوں کی شادی کے بعد وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ تنہا رہ جاتی ہے۔ جب اس کا بڑا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلا جاتا ہے اور شادی کرکے وہیں اپنا گھر بسا لیتا ہے۔ ماں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہے کہ اگر چھوٹا بیٹا بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت چلا گیا تو وہ تو بالکل تنہا رہ جائیگی ۔ لیکن چھوٹا بیٹا ایسا نہیں کرتا، وہ اپنی ماں کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں کے ساتھ سایے کی طرح رہتا ہے، حتیٰ کہ اپنی ماں کے ساتھ ہی سوتا بھی ہے۔ اپنی محبت کی تقسیم کے ڈر سے وہ اپنی شادی سے بھی انکار کر دیتا ہے لیکن ماں نے اس کی شادی کرادی اور وہ سہاگ رات کو بھی اپنی ماں کے کمرے میں ہی سوتا ہے۔
بھورے
"تقسیم کے بعد ہجرت کر پاکستان جا بسے بھورے نام کے ایک شخص کی کہانی۔ بھورے بھارت کے سیتاپور سے نکل کر لاہور جا بستا ہے۔ وہاں وہ ایک اسپتال میں نوکری کرنے لگتا ہے۔ نوکری کے دوران اس کا سابقہ ہر قسم کی عورتوں سے پڑتا ہے، لیکن وہ ان میں سے کسی کے ساتھ شادی کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار نہیں کر پاتا ہے۔ اس عرصے میں اسے اپنے بچپن کی منگیتر ظہورن یاد آتی ہے۔ اتفاق سے ایک دن اس کا سامنا اسی اسپتال میں ظہورن سے ہوتا ہے، جو اپنے صاحبوں کے ناجایز بچے پیدا کرنے کے لیے ہر سال وہاں آتی ہے۔ اس کی یہ حقیقت جان لینے کے بعد پہلے تو وہ ظہورن کو ٹھکرا دیتا ہے، لیکن جب وہ واپس چلی جاتی ہے تو وہ وہیں اس کے انتظار میں ساری عمر گزار دیتا ہے۔"
خرمن
یہ افسانہ ایک ایسی لڑکی کی زندگی پر مبنی ہے جس کی شادی صرف 6 مہینے کے لیے ہوتی ہے۔ اپنی بیمار بیوی کی خدمت اور بچوں کی نگہداشت کے لیے دین محمد کنیز سے صرف 6 مہینے کے لیے شادی کرتا ہے۔ شادی کے بعد سے ہی کنیز سوچنے لگتی ہے کہ سکینہ کی موت کے بعد یہ گھر اور دین محمد ہمیشہ کے لیے اس کے ہو جا ئینگے۔ اس کے لیے وہ دن رات محنت کرتی ہے اور دین محمد کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ سکینہ کے لیے دین محمد کے دل میں اتنی سچی محبت ہے کہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ کنیز کو اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔