خواجہ حسن نظامی کے طنز و مزاح
بنت چھپکلی
خدا کے لئے ریزلو جلدی آؤ۔ اس بنت چھپکلی کو دیوار سے ہٹاؤ، یکساں پروانوں کو کھائے چلی جاتی ہے۔ گرمی آئی میں نے لیمپ جلایا۔ پروانوں کی آمد ہوئی۔ لکھنا پڑھنا خاک نہیں ان کی بے قراریاں دیکھ دیکھ کر جی بہلاتا ہوں۔ شریر چھپکلی زادی کہاں سے آگئی۔ جو
عشق باز ٹڈہ
ہزاروں لاکھوں ننھی سی جان کےکیڑوں پتنگوں میں ٹڈہ ایک بڑےجسم اوربڑی جان کاعشق باز ہے اور پروانے آتے ہیں تو روشنی کےگرد طواف کرتے ہیں، بے قرار ہو ہو کر چمنی سے سر ٹکراتے ہیں۔ ٹڈے کی شان نرالی ہے۔ یہ گھورتا ہے، مونچھوں کو بل دیتا ہے اور اچک کر ایک حملہ
عید کی جوتی
جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔ اب کوئی ان سےعرض کرے، ولائتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں
مس چڑیا کی کہانی
ایک چڑے چڑیا نے نئی روشنی کی ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا۔ اس کوٹھی میں ایک مسلمان رہتے تھے جو ولایت سے بیرسٹری پاس کرکے اور ایک میم کو ساتھ لے کر آئےتھے۔ ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی۔ مگرگھرکےامیر زمیندار تھے۔ گزارہ خوبی سے ہوا جاتا
پیاری ڈ کا ر
کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ ارل کا خطاب درکار نہیں۔ موٹر اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔ میں تو خدا سے اور اگر کسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہو تو اس سے بھی صرف ایک ’ڈکار‘ طلب کرتا ہوں۔ چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے
خدا پرستی کا نسخہ
ڈاکٹروں نے ایجاد کیا۔ گرمی گرمی کو مارتی ہے۔ زہر زہر اتارتا ہے۔ سنا نہیں چیچک و طاعون کے ٹیکے انہی بیماریوں کے زہر سے بنائے جاتے ہیں۔ پھر یہ خدا پرست لوگ نیا علاج کیوں نہیں کرتے ۔ میں عیسائیوں، آریوں اور مسلمانوں کو اپنی ایجادِ جدید سے آگاہ کرنا
جگرنرخ کے ٹکڑے
کاغذ کی گرانی ہندوستان میں جتنے کارخانے کاغذ بنانے کے ہیں وہ رات دن بچاری کلوں کو چلاتے ہیں۔ پل بھر کا آرام نہیں لینے دیتے۔ گھاس اور گودڑ ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔ اس پر بھی پوری نہیں پڑتی۔ کاغذ کا بہاؤ دن بدن گھڑی بہ گھڑی، منٹ
ال گلہری
گلہری ایک موذی جانور ہے۔ چوہے کی صورت، چوہے کی سیرت۔ وہ بھی ایذا دہندہ یہ بھی ستانے والی۔ چوہا بھورے رنگ کا خاکی لباس رکھتا ہے، فوجی وردی پہنتا ہے۔ گلہری کا رنگ چولھے کی سی راکھ کا ہوتا ہے۔ پیٹھ پر چارلکیریں ہیں، جس کو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت بی بی فاطمہ
رشتہ یا خدا
جس کو دیکھا نہیں، جو نہ خود سامنے آئے نہ دوسرے کو آگے بلائے اس سے محبت کیوں کر ہو۔ اس کے ساتھ مروت کیوں کر برتی جائے۔اس کا لحاظ کون کرے۔ رشتہ داری بڑی چیز ہے۔وقت پڑتا ہے تو اپنے رشتہ ہی کے لوگ کام آتے ہیں پسینہ کی جگہ خون بہاتے ہیں۔ رشتہ داری