کرشن چندر کے افسانے
پورے چاند کی رات
اپریل کا مہینہ تھا۔ بادام کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئی تھیں اور ہوا میں برفیلی خنکی کے باوجود بہار کی لطافت آ گئی تھی۔ بلند و بالا تنگوں کے نیچے مخملیں دوب پر کہیں کہیں برف کے ٹکڑے سپید پھولوں کی طرح کھلے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اگلے ماہ تک یہ سپید پھول اسی
ایک طوائف کا خط
پنڈت جواہر لال نہرو اور قائد اعظم جناح کے نام مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط
پشاور ایکسپریس
جب میں پشاور سے چلی تو میں نے چھکا چھک اطمینان کا سانس لیا۔ میرے ڈبوں میں زیادہ تر ہندو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ پشاور سے ہوتے مردان سے، کوہاٹ سے، چارسدہ سے، خیبر سے، لنڈی کوتل سے، بنوں، نوشہرہ، مانسہرہ سے آئے تھے اور پاکستان میں جان و مال کو محفوظ
مہا لکشمی کا پل
مہا لکشمی کے اسٹیشن کے اس پار لکشمی جی کا ایک مندر ہے۔ اسے لوگ ریس کورس بھی کہتے ہیں۔ اس مندر میں پوجا کرنے والے ہارتے زیادہ ہیں، جیتتے بہت کم ہیں۔ مہا لکشمی سٹیشن کے اس پار ایک بہت بڑی بدرو ہے جو انسانی جسموں کی غلاظت کو اپنے متعفن پانیوں میں گھولتی
کالو بھنگی
میں نے اس سے پہلےہزار بار کالو بھنگی کے بارے میں لکھنا چاہا ہے لیکن میرا قلم ہر بار یہ سوچ کر رک گیا ہے کہ کالو بھنگی کے متعلق لکھا ہی کیا جا سکتا ہے۔ مختلف زایوں سے میں نے اس کی زندگی کو دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے کی کوشش کی ہے، لیکن کہیں وہ ٹیڑھی لکیر
امرتسر آزادی سے پہلے
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع میں ہندو تھے، سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان سکھوں سے الگ صاف پہچانے جاتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں، مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں، مذہب الگ تھے لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ
ان داتا
(۱) وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے (ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوب جو اس نے اپنے افسر اعلیٰ کو کلکتہ سے روانہ کئے) ۸ اگست ۱۹۴۳ء کلایو اسٹریٹ، مون شائین لا۔ جناب والا، کلکتہ، ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہوڑہ پل ہندوستان کا سب سے عجیب و غریب
امرتسر آزادی کے بعد
پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ پاکستان آزاد ہوا۔ پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان بھرمیں جشن آزادی منایا جا رہا تھا اور کراچی میں آزاد پاکستان کے فرحت ناک نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پندرہ اگست 1947ء کو لاہور جل رہا تھا اور امرت سر میں ہندو مسلم ،سکھ
محبت کی پہچان
پہلے دن جب اس نے وقار کو دیکھا تو وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ اسماء کی پارٹی میں کسی نے اسے ملوایا تھا۔ ان سے ملو یہ وقار ہیں۔ وقار اس کے لیے مکمل اجنبی تھا مگر اس اجنبی پن میں ایک عجیب سی جان پہچان تھی۔ جیسے برسوں یا شاید صدیوں کے بعد آج وہ دونوں ملے
تائی ایسری
میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ یہیں شاہی محلے کے قریب کوچہ ٹھاکر داس میں ہمارا جہاں آبائی گھر تھا، میری ملاقات پہلی بار تائی ایسری سے ہوئی۔ تائی ایسری ہماری
آدھے گھنٹے کا خدا
دو آدمی اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ اتنی بلندی سے وہ دونوں نیچے سپاٹ کھیتوں میں چلتے ہوئے دو چھوٹے سے کھلونوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں کے کندھوں پر تیلیوں کی طرح باریک رائفلیں رکھی نظر آ رہی تھیں۔ یقیناً ان کا ارادہ اسے جان سے مار دینے کا تھا۔ مگر وہ
ٹوٹے ہوئے تارے
رات کی تھکن سے اس کے شانے ابھی تک بوجھل تھے۔ آنکھیں خمار آلودہ اور لبوں پر تریٹ کے ڈاک بنگلے کی بیئر کا کسیلا ذائقہ۔ وہ بار بار اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر کر اس کے پھیکے اور بے لذّت سے ذائقے کو دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ گو اس کی آنکھیں مندی ہوئی
شہزادہ
سدھا خوبصورت تھی نہ بدصورت، بس معمولی سی لڑکی تھی۔ سانولی رنگت، صاف ستھرے ہاتھ پاؤں، مزاج کی ٹھنڈی مگر گھریلو، کھانے پکانے میں ہوشیار۔ سینے پرونے میں طاق، پڑھنے لکھنے کی شوقین، مگر نہ خوبصورت تھی نہ امیر، نہ چنچل، دل کو لبھانے والی کوئی بات اس میں نہ
مینا بازار
دو عاشقوں میں توازن برقرار رکھنا، جب کے دونوں آئی سی ایس کے افراد ہوں، بڑا مشکل کام ہے۔ مگر رمبھا بڑی خوش اسلوبی سے کام کو سر انجام دیتی تھی۔ اس کے نئے عاشقوں کی کھیپ اس ہل اسٹیشن میں پیدا ہو گئی تھی۔ کیونکہ رمبھا بے حد خوبصورت تھی۔ اس کا پیارا پیارا
کنواری
میگی ایلئیٹ ۸۰ برس کی پروقار خاتون ہیں، بڑے قاعدے اور قرینے سے سجتی ہیں۔ یعنی اپنی عمر ، اپنا رتبہ، اپنا ماحول دیکھ کر سجتی ہیں۔ لبوں پر ہلکی سی لپ اسٹک، بالوں میں دھیمی سی خوشبو، رخساروں پر روژ کا شائبہ سا، اتنا ہلکا کہ گالوں پر رنگ معلوم نہ ہو،
دو فرلانگ لمبی سڑک
کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دوفرلانگ لمبی سڑک ہوگی، ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے، کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر۔ سڑک کے دورویہ شیشم کے سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں۔ان میں نہ حسن ہے نہ چھاؤں،سخت کھردرے تنے اور ٹہنیوں پر گدھوں
میرا بچہ
یہ میرا بچہ ہے۔ آج سے ڈیڑھ سال پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ آج سے ڈیڑھ سال پہلے یہ اپنی ماں کے سپنوں میں تھا۔ میری تند و تیز جنسی خواہش میں سو رہا تھا۔ جیسے درخت بیج میں سویا رہتا ہے۔ مگر آج سے ڈیڑھ برس پہلے اس کا کہیں وجود نہ تھا۔ حیرت ہےاب اسے
بھگت رام
ابھی ابھی میرے بچے نے میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلیاں کو اپنے دانتوں تلے داب کر اس زور کا کاٹا کہ میں چلاّئے بغیر نہ رہ سکا اور میں نے غصّہ میں آکر اس کے دو تین طمانچےبھی جڑ دیئے بیچارا اسی وقت سے ایک معصوم پّلے کی طرح چلاّ رہا ہے۔ یہ بچے کمبخت دیکھنے
پہلا دن
آج نئی ہیروئن کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا۔ میک اپ روم میں نئی ہیروئن سرخ مخمل کے گدّے والے خوبصورت اسٹول پر بیٹھی تھی اورہیڈ میک اپ مین اس کے چہرے کا میک اپ کر رہا تھا۔ ایک اسسٹینٹ اس کے دائیں بازو کا میک اپ کر رہا تھا، دوسرا اسسٹینٹ اس کے بائیں بازو
چاندی کا کمربند
چورنگھی کے سپر میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہاں شکار مل جاتا ہے۔ کلکتہ کے کسی ہوٹل میں اتنا اچھا شکار نہیں ملتا جتنا سپر میں۔ اور جتنا اچھا شکار کرسمس کے دنوں میں ملتا ہے اتنا کسی دوسرے سیزن میں نہیں ملتا۔ میں اب تک سات بار کلکتے آچکا ہوں صرف
غالیچہ
یہ تکنیک کے تجربے کے طور پر لکھی گئی کہانی ہے۔ مختلف مناظر کو جمع کر کے ایک غالیچہ کو مجسم مان کر کہانی بنی گئی ہے۔ روپ وتی خوبصورت ترین، اٹلی کی تعلیم یافتہ عورت ہے جو ایک مقامی کالج میں پرنسپل ہے۔ آرٹسٹ کی ملاقات غالیچہ خریدتے وقت ہوتی ہے اور آرٹسٹ اس کے حسن کی حشر سامانیوں کا قتیل ہو جاتا ہے، لیکن روپ وتی پہلے تو اٹلی کے شاعر جو سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے جو تپ دق میں مبتلا ہو کر مر گیا تھا اور بعد میں آرٹسٹ کے دوست مجہول قسم کے شاعر سے محبت کا انکشاف کرتی ہے اور اس سے شادی کرکے دوسرے شہر منتقل ہو جاتی ہے۔ غالیچہ مختلف واقعات و مناظر کا گواہ رہتا ہے اسی لئے آرٹسٹ اکثر اس سے سوال و جواب کرتا ہے۔ آرٹسٹ دوسری لڑکیوں میں وقتاً فوقتاً دلچسپی لیتا ہے لیکن روپ وتی اس کے حواس پر چھائی رہتی ہے۔ ایک دن اسٹیشن پر اسے روپ وتی مل جاتی ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ روپ وتی تپ دق میں مبتلا ہے، اس کے شاعر شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
بت جاگتے ہیں
یہ کہانی، جومیں آپ کوسنارہاہوں کل تک نہ ہوئی تھی۔ کل رات کے دوبجے تک اس کہانی کے ہونے کاکوئی امکان نہ تھا۔ کل رات کے دوبجے تک جب میں سوچتا سوچتاتھک گیااوریہ کہانی نہ آئی تو میں اس کی تلاش میں گھومتا گھومتا چوپاٹی کی طرف نکل گیا۔ یہاں اس وقت اک عجب