کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر کے قصے
جہنم کی زبان
جن دنوں جوش ملیح آبادی ماہنامہ’’آج کل‘‘ کے مدیر اعلی تھے، ان کے دفتر میں اکثر شاعروں ادیبوں اور مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ پنڈت ہری چندا اختر عرش ملسیانی، بسمل سعیدی ٹونکی، جگن ناتھ آزاد اور مانی جائسی جوش صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ ادھر ادھر
ایک جیل کے قیدی
ہندوستان کے سابق ہوم منسٹر کیلاش ناتھ کاٹجو کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا ۔ انور صابری جب اسٹیج پر آئے تو کلام پڑھنے سے پہلے فرمانے لگے، ’’وقت وقت کی بات ہے، میں اب تک وہی شاعر کا شاعر ہوں اور کاٹجو صاحب وزیر بن گئے ہیں، حالانکہ انگریزوں کے دور حکومت
مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے
گوپی ناتھ امن کے فرزند کی شادی تھی۔ انہوں نے دہلی کے دوست شعراء کو بھی مدعو کیا۔ ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی شریک تھے۔ ہر شاعر نے سہرا یا دعائیہ قطعہ یار باعی سنائی۔ امن صاحب نے بیدی صاحب سے درخواست کی کہ آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیے تو بیدی صاحب نے
خس کم جہاں پاک
ایک دراز ریش، مولانا وضع کے شاعر کسی مشاعرے میں کہہ رہے تھے، ’’جوش ایسے ملحد، بے دین اور بے اصول آدمی کا ہندوستان سے پاکستان چلے جانا ہی بہتر تھا۔ خس کم جہاں پاک۔۔۔!‘‘ ’’جوش صاحب کے مستقل طور پر پاکستان چلے جانے سے تو یہاں خس کی کمی واقع ہوگی،
شعر چور
کنور مہندر سنگھ بیدی دہلی میں آنریری مجسٹریٹ تھے تو پولس والے ایک شاعر کو چوری کے الزام میں گرفتار کرکے لائے۔ کنور صاحب شاعر کو جانتے تھے۔ انہوں نے مسکراکر کہا، ’’بھئی اسے کیوں پکڑ لائے۔ یہ چور نہیں، البتہ شعر چور ضرور ہے۔‘‘
مدح زلف یار
دہلی کے ایک نظم گو شاعر زلف کی تعریف میں ایک اچھی خاصی طویل نظم سنارہے تھے۔ جب نظم سے لوگ اکتا گئے تو کنور مہندر سنگھ بیدی نے کہا قبلہ یہ زلف بھی کیا زلف ہے کہ اس کی تعریف میں آپ اتنی لمبی نظم سنارہے ہیں، تو وہ فوراً بولے، ’’کنور صاحب میں اپنے محبوب
مشاعرے کا لوٹنا
1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کاموقع حاصل کرلیا تھا۔ جب موصوفہ نے غزل پڑھی تو سارے سامعین جھوم اٹھے۔ غزل بھی اچھی تھی۔ لیکن نادانستگی میں اس شاعر ہ سے زیر‘ زبر اور پیش کی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں تو
چار مہینے کی دیوار
کسی مشاعرہ میں کوثر قریشی اپنی غزل کا یہ شعر پڑھ رہے تھے، شرکت انجمن ناز ضروری ہے، مگر ہم پس سایۂ دیوار بہت اچھے ہیں کنور مہندر سنگھ بیدی نے یہ شعر سنا تو کہا، ’’بہت اچھی بات ہے، کوثر صاحب! لیکن خیال رکھئے گا کہ وہ دیوار کہیں نئی دہلی کے ٹھیکیداروں
ایک پیروڈی مشاعرے کا قصہ
دہلی میں ایک پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لئے پیش کیاگیا تو وہ انکسار سے بولے، ’’حضور، میں صدارت کا اہل کہاں ہوں؟‘‘ اس پر کنور مہندر سنگھ بیدی نے فرمایا، ’’مطمئن رہیں، آپ بھی صدر کی پیروڈی ہی ہیں۔‘‘
وہ خزانہ جو اکثر دیوالیہ بنا دیتا ہے
ایک مشاعرے میں نریش کمار شاد نے اپنی باری پر جب حسب ذیل قطعہ پڑھا، جو بھی عورت ہے ساز ہستی کا بیش قیمت سا اک ترانہ ہے ایک ہیرا ہے، خوبرو ہو اگر نیک خو ہو تو اک خزانہ ہے بیدی صاحب نے فرمایا کہ ’’یہ وہ خزانہ ہے جو گھر والوں کو اکثر دیوالیہ بنادیا