لیلیٰ خواجہ بانو کی بچوں کی کہانیاں
میں کٹ مروں گا
ایک تھی مینا، ایک تھا کوا، مینا کا گھر موم کا تھا اور کوے کانون کا تھا۔ مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہو گیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچے کو کوے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچے نے جب کوے سے یہ بات جاکر کہی تو
اکک بکک پٹ کھول دو
ایک بکری تھی وہ روز جنگل جایا کرتی تھی اور اپنے بچوں سے کہہ دیا کرتی تھی کہ کنڈی لگا لو۔ اس کے بچے کنڈی لگا لیا کرتے تھے اور جب بکری جنگل سے آتی تو دروازہ پر کھڑی ہوکر کہتی تھی۔ اکک بکک پٹ کھول دو بچے کنڈی کھول دیتے اور بکری اندر آ جاتی۔ ایک
چڑیا چڑیا پٹ کھول دے
ایک تھا چڑا اور ایک تھی چڑیا۔ چڑا لایا دال کا دانہ۔ چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر کچھڑی پکائی۔ گھر میں نمک نہ تھا۔ چڑیا نے چڑے کو بازار نمک لینے کو بھیجا۔ جب چڑا چلا گیا تو چڑیا نے کھچڑی کھا پی جوٹھے برتنوں میں گندہ پانی بھر چھینکے پر رکھ دیا
چوہیا نے ہاتھی سے پاؤں دبوائے
ایک تھی چڑیا اور ایک تھی چوہیا، دونوں نے کیا آپس میں پہنایا چڑیا بولی چلو بہن آج ذرا جنگل کی سیر کر آئیں۔ چوہیا نے کہا اچھا بہن چلو، چوہیا زمین پر چلی اور چڑیا ہوا میں اڑنے لگی۔ راستہ میں ملا ایک ہاتھی۔ چوہیا اس کے پیر تلے دب گئی تو بچاری چڑیا اپنی
حقا تو مولی تو
بچاری فاختہ جہاں دیکھو دیوار پر حقا تو حقا تو کہا کرتی ہے اصل میں یہ اللہ میاں سے فریاد کرتی ہے۔ کیونکہ کوے نے اس پر بڑا ظلم کیا ہے۔ سنا نہیں لوگ کہا کرتے ہیں محنت کریں بی فاختہ کوا میوہ کھائے اس کی کہانی اس طرح ہے کہ ایک دفعہ کوے اور فاختہ نے مل
میں کیا تجھ سے روٹھی تھی
ایک تھی چوہیا اور ایک تھا چوہا، دونوں کی ہوئی شادی چوہیا سسرال میں آئی تو اس نے ساس کو سلام نہ کیا بڑھیا ساس نے اپنے بیٹے چوہے سے کہا کہ اس موئی کو خوب مار یہ بڑی بدتمیز ہے، اپنے بڑوں کو سلام بی نہیں کرتی، چوہے نے اپنی اماں کا کہنا مانا اور لے کر جوتی