مینا کماری ناز کا تعارف
اصلی نام : مہ جبیں ناز
پیدائش : 01 Aug 1933 | ممبئی, مہاراشٹر
وفات : 31 Mar 1972
رشتہ داروں : منشی پیارے لال شاکر (دادا)
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
تاریخ پیدائش : 1۔ اگست 1932ء
تاریخ وفات : 31 مارچ 1972ء
مینا کماری کا اصل نام تو مہ جبیں تھا۔ اس کی پہلی فلم لیدر فیس کے بعد وجے بھٹ نے اس کا نام تبدیل کر دیا تھا اور اس کے لیے تین نام پربھا، کملا اور مینا چنے گئے اور آخر اسے مینا کا نام مل گیا۔ اور آٹھ سال بعد اپنی پہلی فلم میں وہ مینا کماری بن گئی۔ ویسے اس کا نک نیم منجو تھا۔ وہ تین بہنیں تھیں۔ اس کی ایک بہن کی شادی مشہور کامیڈین اداکار محمود سے ہوئی تھی۔ مینا نے چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا اور یہ فنی سفر طے کرتے ہوئے اپنے آخری لمحات تک انڈین فلم انڈسٹری کو دئیے۔ اس کو چالیس سال میں وہ بے پناہ کامیابی، عزت اور شہرت ملی جسں تک پہنچنا کسی اداکارہ کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ پہلی اداکارہ تھی جس نے پہلا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ اور یہ ایوارڈ اسے فلم بیجو باوارا پر ملا تھا۔ بیجو باورا ہی وہ پہلی فلم تھی جس نے مینا کو شہرت اور پہچان دی-
مینا کماری کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ مرزا غالب کی شاعری کی بہت بڑی فین تھیں۔ اور اس کے پاس غالب کا سارا کلام موجود تھا۔ اس کی اپنی ایک اچھی خاصی لائبریری اور کولیکشن موجود تھی۔ فلم بے نظیر کے سیٹ پر مشہور ڈائریکٹر بمل رائے کے اسسٹنٹ نے مینا کماری کو رائٹر اور شاعرگلزار سے ملایا اور یہاں سے اس کی زندگی میں اک نیا باب شروع ہوا شاعری کا، اور وہ خود بھی شعر کہنے لگی۔ ناز اس کا تخلص تھا۔ زندگی میں عزت، دولت، شہرت سب کچھ اسکے پاس تھا۔ لیکن بعض دفعہ انسان پھر بھی تشنہ رہ جاتا ہے۔ یہ بات مینا کماری پر صادق آئی۔ جہاں اس کی پروفیشنل زندگی میں سب کچھ اچھا چل رہا تھا وہیں اس کی ذاتی زندگی اتنی ہی ڈسٹرب تھی۔ پہلے وہ کمال امروہی کی دوسری بیوی بنی۔ پھر وہ چاہتے ہوئے بھی ماں نہ بن پائی۔ ان دنوں وہ عروج پر تھی۔ جب میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوئی۔ جسے بد خواہوں نے ہوا دی اور میاں بیوی میں دوری ہوئی۔ یہ جدائی اور زخم اس نے اپنے دل پر لیے۔ میں جب بھی مینا جی کی لکھی شاعری پڑھتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ ان کے ٹوٹے دل کی کرچیاں ہیں۔ جو غزل اور نظم کی صورت کاغذ پر پھیلی ہیں۔ دکھ اور غموں نے جیسے اسے مات دے دی ۔ اور اس کے اندر کی شاعرہ بیدار ہو گئی تھی۔
ہم سے کہاں بھول ہوئی
اے وقت سنبھال مجھے
اوراک بدن نے اپنی روح کو تیاگ دیا
یہ بھی نہ سوچا بدن تڑپتا رہے گا
اور
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا دھجی دھجی رات ملی
جس کا جتنا دامن تھا اتنی ہی سوغات ملی
جب چاہا دل کو سمجھانا ہنسنے کی آواز ملی
جیسے کوئی کہتا ہو لو پھر تم کو مات ملی
دل سا جب ساتھی پایا بے چینی بھی ساتھ ملی
۔ اداکار پردیپ کمار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ موتی برستے تھے جب وہ بولتی تھی۔ الفاظ ترستے تھے کہ مینا کماری انھیں اپنے ہونٹوں سے ادا کرے۔مینا کماری کے بعد بہت سی اداکارئیں آئیں اور انھوں نے اس جیسا بننا چاہا لیکن بن نہ پائیں۔ سو وہ ایک ہی مینا کماری تھی اور اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ زندگی سے کافی کچھ پا کر بھی وہ اس بات کی تفسیر بن گئی۔
عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کونسی نہ وہ سمجھ سکے نہ ہم
وہ ایک بہت بڑی اداکارہ تھی فلمی صنعت کے آکاش پر ایک چاند کی طرح اس کی جگمگاہٹ محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ ایک ایسی شاعرہ ، جس کے درد بھرے ٹوٹے دل سے صدائیں نکلتی تھیں