اردو کے مقبول مزاح نگاروں میں ایک نام عظیم بیگ چغتائی کا ہے۔ ان کے ہلکے پھلکے مزاح کی بنیاد لڑکپن کی شرارتوں پر ہے جن سے ہر انسان کو کبھی نہ کبھی سابقہ پڑا ہے۔ اس لیے عام لوگوں نے ان کی ظرافت کو بہت پسند کیا۔
عظیم بیگ چغتائی کی ولادت جودھ پور میں ہوئی۔ وہیں ابتدائی تعلیم پائی۔ ولادت سے وفات تک علالت کا سلسلہ جاری رہا۔ بے حد کمزور تھے اس لیے بہن بھائیوں کو ڈانٹ پڑتی رہتی تھی کہ انہیں نہ چھیڑیں، انہیں نہ ستائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو چوٹ لگ جائے۔ اس برتاؤ کا ان کی شخصیت پر برا اثر پڑا اور طبیعت میں ایک نفسیاتی گرہ پڑ گئی۔ عصمت چغتائی ان کی بہن تھیں۔ انہوں نے ’’دوزخی‘‘ کے عنوان سے ان کا خاکہ لکھا اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا بہت دلچسپ انداز میں ذکر کیا۔ لڑکپن کی جن شرارتوں کی تصویریں عظیم بیگ چغتائی اپنی تحریروں میں کھینچتے ہیں وہ اس کمزوری کا فطری رد عمل ہے۔ طویل عرصے تک وہ دق کے مرض میں مبتلا دہے۔ آخر 1941ء میں وفات پائی۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ عظیم بیگ چغتائی معاشرے میں پھیلی ہوئی فرسودہ روایتوں سے بیزار تھے اور اصلاح کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ظریفانہ اورطنزیہ مضامین بھی لکھے۔ اس کے علاوہ ’’قرآن اور پردہ‘‘ جیسی سنجیدہ کتاب بھی لکھی۔
شریر بیوی، کولتار اور خانم کو اردو ادب میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔
مددگار لنک :
| https://www.dawn.com/news/1428866/essay-the-first-feminist-urdu-writer