مرزا عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
وکالت
منظور ہے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے وکالت بھی کیا ہی عمدہ۔۔۔ آزاد پیشہ ہے۔ کیوں؟ سنیے میں بتاتا ہوں۔ پار سال کا ذکر ہے کہ وہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا کہ صبح کے آٹھ بج گئے تھے مگر بچھو نے سے نکلنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ لحاف
انگوٹھی کی مصیبت
میں نے شاہدہ سے کہا، "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔" شاہدہ نے کہا، "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔" میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک
یکہ
’’دس بجے ہیں۔‘‘ لیڈی ہمت قدر نے اپنی موٹی سی نازک کلائی پر نظر ڈالتے ہوئے جماہی لی۔ نواب ہمت قدر نے اپنی خطرناک مونچھوں سے دانت چمکا کر کہا، ’’گیارہ، ساڑھے گیا بجے تک تو ہم ضرور پھو۔۔۔ ہونچ۔۔۔ بغ۔۔۔‘‘ موٹر کو ایک جھٹکا لگا اور تیوری پر بل ڈال کر نواب
شاطر کی بیوی
عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔
مصری کورٹ شپ
’’میں نے جو پیرس سے لکھا تھا وہی اب کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر دیکھے بھالے شادی کر لوں، سو اگر آپ میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو مجھ کو اپنی منسوبہ بیوی کو نہ صرف دیکھ لینے دیجئے بلکہ اس سے دو چار منٹ باتیں کر لینے دیجئے۔‘‘
رموز خاموشی
میں چار بجے کی گاڑی سے گھر واپس آ رہا تھا۔ دس بجے کی گاڑی سے ایک جگہ گیا تھا اور چونکہ اسی روز واپس آنا تھا لہٰذا میرے پاس اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا۔ صرف ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے اترے۔ ان کا قد بلا
تیمارداری
پانچ چھ سال انگلستان میں رہ کر میں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ کچھ دن تک تو نتیجے کا انتظار رہا اور خوب ملک کی سیر کی۔ اب ارادہ ہو رہا تھا کہ کیوں نہ یورپ کے مشہور ممالک کی پہلی اور آخری مرتبہ سیر کی جائے۔ والد صاحب روپیہ جس تنگ دلی سے بھیجتے تھے، اس
کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟
ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو خوبصورت ترین ہستی یعنی خدانے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے جیسے رسالوں کے ایڈیٹر۔ یا شیطان کے کان بہرے، خود ہماری گھر والی اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو شاید خدائے تعالیٰ نے فرشتوں سے ٹھیکے پر بنوایا ہے اور ان ٹھیکیداروں نے ہم کو اس تیزی
ٹیلی فون
بیسویں صدی کی بہترین ایجاد، کیا بلحاظ فوائد بنی نوع انسان اور کیا بلحاظ آرام و آسائش، اگر ہے تو ٹیلی فون ہے۔ (۱) مندرجہ بالا اقتباس میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے نہایت ہی اطمینان سے اپنی میز پر نظر ڈالی اور کیوں نہ ڈالتا کہ میں بھی ایک ٹیلی فون
رساکشی
میں اپنے اس افسانے کو ایک موٹے سے رسے کے نام نامی پر معنون کرتا ہوں جو بڑے زور و شور سے کھینچا جا رہا ہے۔ (۱) عرصہ کئی سال کا ہوا ہم دو دوست دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے وطن لاہور سے کلکتے گئے۔ وہاں سے واپسی کا ذکر ہے کہ میرے دوست تو وہیں رہ گئے اور
نیکی کرنا جرم ہے
پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابل دست اندازی پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔ (۱) ایک روز کا ذکر
خود مختار دوشیزہ
(انگلستان کی ایک جھلک) ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دوسرا گلاس ختم کرتے ہوئے پوچھا، ’’بولتی نہیں، یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ اس کے سرخ ہونٹ دہکنے لگے۔ سارا چہرہ شرارت کے نور سے تلملا اٹھا۔ صاف و شفاف چہرے پر سرخی جھلکنے لگی۔ چہرہ مسرت آمیز جذبات کا آئینہ تھا۔ اس نے
کرکٹ میچ
(۱) کرکٹ میچ پر آج کل برسات کے موسم میں کوئی مضمون لکھنا ’’بےفصلی‘‘ سی چیز ہے۔ بالخصوص جب کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کرکٹ کے واہیات میچوں کا حال اور ان کی خبریں چھاپتے چھاپتے اخبار والوں نے پبلک کو پست کر دیا اور پھر اب تو ایم سی سی والے بھی ہندوستان
پٹی
پٹیاں ایک تو وہ ہوتی ہیں جو چارپائیوں میں لگائی جاتی ہیں اور ایک وہ جو سپاہیوں کے پیروں پر باندھی جاتی ہیں، پھر اور بہت قسم کی پٹیاں بھی ہیں، لیکن میرا مطلب یہاں اس پٹی سے ہے جو پھوڑا پھنسی یا اسی قسم کی مصیبتوں کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے یہاں باندھی جاتی
چند بیل
ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ خاموش بیٹھا جگالی کر رہا ہے۔ آنکھیں نیم باز ہیں اور ایک کتا بڑی مشقت، تن دہی اور انہماک کے ساتھ اس کے منہ کے سامنے کھڑا بھونک رہا ہے۔ بڑھ بڑھ کر بھونکتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے۔ آخر جب کتا بہت قریب پہنچ گیا تو بیل نے زور سے ’’سوال‘‘
ممتحن کا پان
ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کرلیتے ہیں، مگر جناب میں غیرجنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو۔ اب تو نہیں لیکن
مہارانی کا خواب
میری عمر جب دو برس کی تھی تو کئی جگہ سے میری شادی کے پیغام آئے۔ منجملہ ان کے صرف ایک ایسا تھا جو ہم پلہ والی ریاست کے یہاں سے تھا لیکن لڑکی بہت بڑی تھی۔ در اصل اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی اور میں صرف دو برس کا بچہ۔ چونکہ یہ پیغام ایک ہم پلہ مہاراجہ
جنم قیدی
اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں شام کا سہانا وقت تھا۔ خوبصورت گدھے ریشمی کھیتوں میں کلیلیں کر رہے تھے۔ ان کی سریلی آوازوں کا پر کیف نغمہ ہوا میں ایک ارتعاش اور ترنم پیدا کر رہا تھا۔ گوبر اور سڑے ہوئے پتوں کی بھینی بھینی بدبو سے ہوا میں گرمی سی تھی۔
بڑے شرم کی بات
اماں جان نے خوشخبری سنائی کہ ’’افضل آ رہا ہے۔۔۔‘‘ ’’ارے!‘‘ میرے منہ سے نکلا مگر میں چپ ہوکر سیدھی اٹھی اور چلی گئی۔ یہ واقعہ تھا کہ بھائی افضل آ رہے تھے۔ کون بھائی افضل؟ بس نہ پوچھئے۔ جب کا ذکر ہے کہ بھائی افضل ہمارے ہاں رہتے تھے۔ بخدا کیا زمانہ تھا۔