تمام
تعارف
غزل233
شعر380
ای-کتاب989
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 45
آڈیو 82
ویڈیو 306
مرثیہ1
قطعہ28
رباعی34
قصہ18
بلاگ12
دیگر
سہرا3
غیر متداول غزلیں238
قادر نامہ1
قصیدہ10
سلام1
مخمس1
مثنوی3
غیرمتداول اشعار59
مرزا غالب کے قصے
بوتل کی دعا
ایک شام مرزا کو شراب نہ ملی تو نماز پڑھنے چلے گئے۔ اتنے میں ان کا ایک شاگرد آیا اور اسے معلوم ہوا کہ مرزا کو آج شراب نہیں ملی، چنانچہ اس نے شراب کا انتظام کیا اور مسجد کے سامنے پہنچا۔ وہاں سے مرزا کو بوتل دکھائی۔ بوتل دیکھتے ہی مرزا وضو کرنے کے بعد مسجد
آدھا مسلمان!
غدر کے ہنگامے کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو مرزاغالبؔ کو بھی بلایا گیا۔ یہ کرنل براؤن کے روبرو پیش ہوئے تو وہی کلاہ پیاخ جو یہ پہنا کرتے تھے، حسب معمول ان کے سر پر تھی۔ جس کی وجہ سے کچھ عجیب و غریب وضع قطع معلوم ہوتی تھی۔ انہیں دیکھ کر کرنل براؤن نے
دلی میں گدھے بہت ہیں
ایک بار دلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا صاحب مولانا فیض الحسن فیضؔ سہارنپوری کے ہمراہ واپس آرہے تھے۔ راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزر رہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھا۔ مولانا نے یہ دیکھ کر کہا، ’’مرزا صاحب، دلی میں گدھے بہت ہیں۔‘‘ ’’نہیں
الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی
مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور
آم: جسے گدھا بھی نہیں کھاتا
ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے، میرزا صاحب کے مکان پر آئے۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اتفاق سے ایک کمہاراپنے گدھے لیے سامنے سےگزرا۔ زمین پر آم کے چھلےا پڑے تھے۔ گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑ کر
اپنے جوتوں کی حفاظت
ایک دن جبکہ آفتاب غروب ہورہا تھا، سید سردار مرزا، مرزا غالبؔ سے ملنے کو آئے۔ جب تھوڑی دیر کے بعد وہ جانے لگے تو مرزا صاحب خود شمع لے کر فرش کے کنارے تک آئے تاکہ سید صاحب اپنا جوتا روشنی میں دیکھ کر پہن لیں۔ انہوں نے کہا، ’’قبلہ! آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟
آنکھیں پھوٹیں جو ایک حرف بھی پڑھا ہو
مارہرے کی خانقاہ کے بزرگ سید صاحب عالم نے غالبؔ کو ایک خط لکھا۔ ان کی تحریر نہایت شکستہ تھی۔ اسے پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ غالبؔ نے انہیں جواب دیا، ’’پیرو مرشد، خط ملا چوما چاٹا، آنکھوں سے لگایا، آنکھیں پھوٹیں جو ایک حرف بھی پڑھا ہو۔ تعویذ
تم نے میرے پیر دابے میں نے پیسے
ایک روز مرزا صاحب کے شاگرد میر مہدی مجروحؔ ان کے مکان پر آئے۔ دیکھا کہ مرزا صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ یہ ان کے پاؤں دابنے لگے۔ مرزا صاحب نے کہا بھئی تو سید زادہ ہے مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے؟‘‘ میر مہدی مجروحؔ نہ مانے اور کہا کہ ’’آپ کو ایسا ہی خیال
مرزا تم نے کتنے روزے رکھے؟
ایک مرتبہ جب ماہ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ، ’’مرزا تم نے کتنے روزے رکھے؟‘‘ مرزا صاحب نے جواب دیا، ’’پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔‘‘ ایک مرتبہ ماہ رمضان میں مرزا غالبؔ نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگاکر کھایا۔ ایک
میں باغی کیسے؟
ہنگامۂ غدر کے بعد جب مرزا غالبؔ کی پنشن بند تھی۔ ایک دن موتی لال، میر منشی لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب، مرزا صاحب کے مکان پر آئے۔ دوران گفتگو میں پنشن کا بھی ذکر آیا۔ مرزا صاحب نے کہا، ’’تمام عمر اگر ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور اگر ایک دفعہ نماز
کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے
مرزا صاحب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کئی مکان دیکھے، جن میں ایک کا دیوان خانہ مرزا صاحب کو پسند آیا، مگر محل سرادیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آکر بیگم صاحبہ کو محل سرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں تو بتایا
’’دیکھو صاحب! یہ باتیں ہم کو پسند نہیں
ایک دفعہ مرزا صاحب نے ایک دوست کو دسمبر 1858کی آخری تاریخوں میں خط ارسال کیا۔ دوست نے جنوری 1859کی پہلی یا دوسری تاریخ کو جواب لکھا مرزا صاحب ان کو لکھتے، ’’دیکھو صاحب! یہ باتیں ہم کو پسند نہیں۔ 1858کے خط کا جواب 1859میں بھیجتے ہو اور مزا یہ کہ جب
پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی
جب مرزا قید سے چھوٹ کر آئے تومیاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا، ’’کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے! پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔‘‘
خدا کے سپرد!
غدر کے بعد مرزا کی معاشی حالت دو برس تک دگر گوں رہی۔ آخر نواب یوسف علی خان رئیس رامپور نے سو روپیہ ماہانہ تاحیات وظیفہ مقرر کردیا۔ نواب کلب علی خان نے بھی اس وظیفے کو جاری رکھا۔ نواب یوسف علی خان کی وفات کے چند روز بعد نواب کلب علی خاں لیفٹنٹ گورنر سے
نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے
امراؤ سنگھ جوہر ،گوپال تفتہؔ کے عزیز دوست تھے۔ ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہؔ نے مرزا صاحب کو بھی لکھا، تو انہوں نے جواباً لکھا، ’’امراؤ سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے۔ اللہ اللہ! ایک وہ ہیں کہ دوبار ان کی
خسر کا شجرہ اور مرزا کی شرارت
مرزا صاحب کے خسر مرزا الٰہی بخش خان پیری مریدی بھی کرتے تھے اور اپنے سلسلے کے شجرہ کی ایک ایک کاپی اپنے مریدوں کو دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مرزا صاحب سے شجرہ نقل کرنے کے لیے کہا، مرزا صاحب نے نقل تو کردی مگر اس طرح کہ ایک نام لکھ دیا دوسرا چھوڑ