محمد حسین آزاد کے مضامین
انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا
سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تمام اہل دنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کردیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔ ایک اور حکیم اس لطیفے کے مضمون
سیر زندگی
ایک حکیم کا قول ہے کہ زندگی ایک میلہ ہے اور اس عالم میں جو رنگا رنگ کی حالتیں ہم پر گزرتی ہیں، یہی اس کے تماشے ہیں۔ لڑکپن کے عالم کو پیچھے چھوڑ کر آ گے بڑھے، نوجوان ہوئے اور پختہ سال انسان ہوئے اس سے بڑھ کر بڑھاپا دیکھا اور حق پوچھو تو تمام عمر انسانی
سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ
عہد قدیم کے مؤرخ لکھتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں فارس کے شرفا اپنے بچوں کے لئے تین باتوں کی تعلیم میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ شہ سواری، تیراندازی اور راست بازی۔ شہ سواری اور تیراندازی تو بے شک سہل آ جاتی ہوگی، مگر کیا اچھی بات ہوتی کہ اگر ہمیں معلوم ہو جاتا
شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار
اے ملک فنا کے رہنے والو! دیکھو اس دربار میں تمہارے مختلف فرقوں کے عالی وقار جلوہ گر ہیں۔ بہت سے حب الوطن کے شہیدہیں، جنہوں نے اپنے ملک کے نام پرمیدان جنگ میں جاکر خونی خلعت پہنے۔ اکثر مصنف اور شاعر ہیں جنہیں اسی ہاتف غیبی کا خطاب زیبا ہے جس کے الہام
گلشن امید کی بہار
انسان کی طبیعت کو خدا نے انواع و اقسام کی کیفیتیں عطا کی ہیں مگر زمین جس قدر تخم امید کو پرورش کرتی ہے اس کثرت سے کسی کیفیت کو سرسبز نہیں کرتی اور کیفیتیں خاص خاص وقت پر اپنا اثر کر اٹھتی ہیں یا بمتقضائے سن خاص عمروں میں ان کے اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر
اردو اور انگریزی انشاپردازی پر کچھ خیالات
اگر زبان کو فقط اظہار مطلب کا وسیلہ ہی کہیں، تو گویا وہ ایک اوزار ہے کہ جو کام ایک گونگے بیچارے یا بچہ نادان کے اشارے سے ہوتے ہیں، وہی اس سے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس کا مرتبہ ان لفظوں سے بہت بلند ہے۔ زبان حقیقت میں ایک معمار ہے کہ اگر چاہے تو باتوں
در باب نظم اور کلام موزوں
(حسب الفرمائش) مولوی صاحب کی یہ تقریر رسالہ انجمن شمارہ ماہ اگست 1868ء سے ماخوذ ہے۔ ’’حسب الفرمائش‘‘ کے الفاظ انہوں نے اپنے قلم سے بعد میں تحریر کئے ہیں۔ اسی مضمون نے نظر ثانی سے نور حاصل کیا ہے۔ بعض مقامات پر کچھ الفاظ تبدیل کئے ہیں۔ مثلا چھپا ہوا
آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا
سیر کرنے والے گلشنِ حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی و استقبال کے، روایت کرتے ہیں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولاد آدم مسرت عام اور بے فکری مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے۔ ملک ملک
جنت الحمقاء
تمہید مضمون مفصلہ ذیل ایک مرقع خاص کی تصویر کا خاکہ ہے، جس کی صورت اصلی یہ ہے کہ ہم اور ابنائے جنس ہمارے کچھ اپنی غلط فہمی سے اور کچھ کوتاہ اندیشی سے اعمال قبیحہ یا حرکات ناپسندیدہ میں مبتلا ہیں اور باوجود کہ اس کے حال و مآل کی قباحتوں سے آگاہ
ہر ایک سر زمین اور اس کے موسموں کی بہار انشا پردازی پر کیا اثر کرتی ہے
عزیزان وطن! میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہر ایک انشا پردازی اپنے ملک کی سر زمین، آب و ہوا اور پیداواری بلکہ اس کے جغرافیہ کو آئینہ کی طرح دکھاتی ہے۔ کیونکہ جو چیزیں انشا پر داز کو اس کے آس پاس نظر آتی ہیں، انہی کو وہ ادائے مطلب کے سامان میں خرچ کرتا
علوم کی بدنصیبی
تمہید تمام صاحب جو ہر اور کل اہل کمال ہمیشہ سے ان نالائقوں اور غلط نما باکمالوں کے ہاتھوں سے نالاں ہیں، جو فلک کی سفلہ پروری یا قسمت کی یاوری سے ہوائے مراد کے بلون میں بیٹھے ہیں اور ترقیوں کے آسمان پر سیر کرتے پھرتے ہیں۔ اس معاملہ میں اہل علوم سے
علمیت اور ذکاوت کے مقابلے
تمہید جو لوگ علم و کمال کی مسندیں بچھاکر بیٹھے ہیں ان کی مختلف قسمیں ہیں۔ اول وہ اشخاص ہیں کہ جس طرح علم کتابی اور درس و تدریس میں طاق ہیں، اسی طرح حسن تقریر اور شوخی طبع میں براق ہیں۔ دوسرے وہ کہ ایک دفعہ کتابوں پرعبور کر گزرے ہیں، مگر پھر خالی
سیر عدم: مسافران عدم کے پسماندوں کی سرگزشت
جب کوئی نہایت چہیتی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اورمعلوم ہوکہ اب ہاتھ نہ آئے گی توکیا دل بے قرارہوتاہے اور جان صحرائے تصور میں کیسی اس کے پیچھے بھٹکتی پھرتی ہے، مگر جب تھک کر ناچار ہوجاتی ہے تو اداس بے آس ہوکرآتی ہے اور اپنے ٹھکانے پرگرپڑتی ہے۔ عقل
فیلا لوجیا: لغات اور زبانوں کی فلسفی تحقیقات کے اصول
یہ ایک قدیم فن فلاسفۂ یونان کا ہے۔ اس سے مختلف زبانوں کی اصلیں اور ان کاتعلق ایک دوسرے سے معلوم ہو جاتا ہے۔ عرب اور فارس جہاں سے پہلے ہمیں علوم کے ذخیرے ملے، ان میں اس کے اصول و فروع کا پھیلاؤ بہت نہیں ہو اور جس قدر ہوا گُم ہو گیا۔ اب جو کچھ ہے انگریزی