محمد جاوید انور کے افسانے
نارسائی
میرے بھاری جوتے خزاں گزیدہ سوکھے پتوں کی احتجاجی آوازوں سے بےنیاز، انہیں روندتے چلے جا رہے تھے۔ میری کیفیت سے بےپروا زوال پذیر سورج نارنجی افق میں غروب سے قبل کی آخری رنگ ریزی میں مگن تھا۔ میں زرد پڑتی گھاس کے بیچ لیٹی گرد پوش پگڈنڈی پر خود کو
سرکتے راستے
جب وہ چلتی تو ریت بھرا رستہ اس کے پاؤں کے نیچے سے سرکتا۔ متحرک راستے پر اسے آگے بڑھنے میں سخت دشواری پیش آتی۔ ریت اس کے پاؤں جکڑتی اور رائیگاں مشقت کا درد اس کی پنڈلیوں سے ہوتا ہوا سر تک پہنچتا۔ اس کا گورا، گداز جسم اپنے اندر سڑتے بستے، بے توقیر
دروازہ
"کہہ دینا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔" اس کے لہجے میں مایوسی، تلخی اور احتجاج سب ملے ہوئے تھے۔ آج جب وہ پاؤں گھسیٹتا، سر جھکائے، ملگجے لباس اور بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ سڑک کی طرف کا جالی دار دروازہ آہستگی سے کھول کر اپنے پسندیدہ کونے تک پہنچا
آخری گجرا
اور پھر ہماری شادی ہو گئی۔ رضیہ میرے خوابوں کی شہزادی تھی۔ میں کیا اور میرے خواب کیا۔ لیکن خواب تو سبھی کے ہوتے ہیں اور خوابوں کی شہزادیاں بھی۔ میرے پاس تھا کیا اسے دینے کو؟ پھر بھی وہ خوش تھی کہ جو کچھ چھوڑ کر آ رہی تھی وہ بھی کسی کو
برگد
وہ تین دیہات کے عین وسط میں زمانوں سے چھایا ایک انتہائی شاندار گھنا گھنیرا، چھتنار برگد تھا۔اس کی موٹی، لمبی اور مضبوط شاخوں نے چاروں طرف ایسا دبیز، نرم اور خواب آور سایہ پھیلا دیا تھا کہ دن کو سورج کی قوی ترین کرن بھی اسے چیر کر زمین نہیں چھوپاتی
اجلے پاؤں، میلے پاؤں
وہ میری قطار سے اگلی قطار میں میرے سامنے سے دائیں والی کرسی پر دونوں پاؤں اپنی رانوں تک سکیڑ کر سیٹ پر رکھے بیٹھی تھی۔ آلتی پالتی مارے نہیں بلکہ اپنی منحنی، نازک ٹانگیں دوہری کئے۔ اس کے لاغرسفید پاؤں مجھے بہت خوب صورت اور سبک لگ رہے تھے۔ ایک
دشت وحشت
وہ مجھے سرحد تک جانے والی ٹرین کی منتظر ریلوے کے مخصوص بنچ پر بیٹھی ملی۔ بڑے اسٹیشن پر بہت رونق تھی۔ ہفتے میں دوبار سرحد تک، جانے والی گاڑی نے علی الصبح نکلنا تھا۔ برادر ملک کے ساتھ مسافروں کی آمد و رفت کا بس ایک ہی رستہ کھلا تھا اور یہ ریل گاڑی
شیر
گیلے بھاری آسمان تلے دسمبر کے آخری دنوں کا کہر جھونپڑی کو مکمل گھیرے تھا۔ برفیلی سیلن جھونپڑی کے اندر رستی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یاسیت میں غرق بستی کے بیکار کتے ساری رات بھونکنے کے بعد فطری کسلمندی کے سبب چپ سادھ چکے تھے۔ گو ان کے کورس بند ہو چکے
زندگی اے زندگی
اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔ " اب تمہاری سمجھ میں آگا ہو گا کہ مں ساری زندگی کوئی بھی تعلق، میرا مطلب ہے کہ رومانوی تعلق کون نہیں نبھا سکا۔" اس نے اپنی طرف سے قصہ ختم کا۔ ہم یہ دھواں دھار گفتگو پچھلے تند گھنٹے سے کر رہے تھے۔ اس کا خال تھا
عجیب لڑکی
’’نہیں بھائی۔ میں نہیں مانتی۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں یا الجبرے کا سوال حل کر رہی ہوں جو آپ مجھے فارمولے پر فارمولا سکھانے سمجھانے پر تلے ہیں۔ شروع کی لائن پٹاخہ ہونی چاہیے، پھر زینہ زینہ کہانی آگے بڑھے، کردار محدود ہوں، جزئیات پر زیادہ ارتکاز
غرض
مجھے اس سے غرض نہیں کہ تمہارا اور کس سے کیا تعلق ہے۔ میں صرف اس سے غرض رکھتا ہوں اور اسی میں خوش ہوں کہ تم مجھ سے متعلق ہو۔ فرخ کی آواز میں تیقن نے فریدہ کی روح تک کو نہال کردیا۔ اسے فرخ کی حسین، بھوری آنکھوں میں دنیا بھر کا خلوص ٹھاٹھیں مارتا
بھٹی
محمد علی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی مدد سے چھیداں کی بھٹی کی دہکتی آگ میں دھکیلا تو چنگاریوں کی شوخ قطار چڑ چڑ کر کے بھٹی کے دہانے سے نکل بھاگی۔ بھٹی نے ایندھن کا استقبال کر کے بھڑکتے شعلوں کو تیز تر کرتے ہوئے گاڑھے کثیف
نیرنگی
شگفتہ نے اپنی پتلی سی چوٹی مکمل کر کے آخری گرہ لگائی، اسے پیچھے پھینکا اور حسب عادت سر کو جھٹکا۔ گاؤں کی تنگ گلی میں کھلتے لکڑی کے خستہ دروازے کو اپنے پیچھے آہستگی سے بند کر کے وہ باہر نکل آئی۔ گلی کے درمیان بہتی نالی کے سیاہ کیچڑ کی سڑاند اسے
نظر بد
اب جبکہ مںئ ایک طویل عمر گزار چکا ۱پنی سٹڈی مںت آسودہ ، پل پل اترتی شام کی آہٹ سنتا ہوں، سال خوردہ سابہ ششمص کی شاندار آرام کرسی مںر نمن دراز ، بڑے بڑے ، شفاف ششویں سے باہر کھڑکی پر سایہ کئے بوگن ویاما اور جھُومر بل کی شاخوں کو نرم ہوا سے جھُومتا
کشتی
’’پھر میں نے اسے کہا کہ زیور اتار کر رکھ لو‘‘۔ ’’وہ کیوں؟ کیا کوئی کشتی ہونے جا رہی تھی؟‘‘۔ ہم تینوں حمید کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ آٹھویں کے سالانہ امتحانات سر پر تھے لیکن پھر بھی حمید کو شادی کے لئے چھٹیاں مل ہی گئیں۔ لیکن ملیں صرف چار اوروہ
مہربانی
لکڑی کی چوکی پر کھڑا اجوحیران تھا کہ نذیر نائی آج کچھا اتار کر اس کی حجامت کیوں بنائےگا۔ صبح ہی سے حویلی میں رونق معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ برادری والے صاف کپڑے پہن کر سروں پر رنگ برنگے صافے باندھے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اجو نے سوچا کہ آج پھر بیل گاڑیوں
فیک
میں جان گیا تھا کہ صبا اسماعیل ایک فیک آئی ڈی ہے لیکن میں اسے ان فرینڈ تک کرنے کو تیار نہیں تھا چہ جائیکہ بلاک کرتا۔ کچھ نشے اپنا جواز بھی ساتھ ہی لاتے ہیں اور ہوتے ہوتے جواز کے مرہون منت ہی نہیں رہتے۔ صبا کی فرینڈز ریکوئیسٹ آنے پر میں نے کئی مشترک