مبین مرزا کے افسانے
خوف کے آسمان تلے
دن تو وہ بھی عام دنوں کی طرح شروع ہوا تھا۔ معمول کے مطابق پروفیسر کیانی نے فجر کی اذان سنتے ہوئے بستر چھوڑا، نماز پڑھ کر صبح کی سیر پر نکل گئے۔ لوٹ کر آئے تو بیگم نے چائے تیار کی ہوئی تھی، وہ چائے کے ساتھ اخبار لے کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد نہائے دھوئے
گمشدہ لوگ
مسلسل شور ہو رہا تھا۔ آخر تنگ آکر انجلی نے آنکھیں کھول دیں۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا الارم کلاک بج رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کل دبائی اور پھر الکساہٹ سے ہاتھ وہیں چھوڑ دیا۔ الارم کلاک کی ٹررن۔۔۔ ٹرررن تو بند ہوگئی لیکن شور ابھی تھما نہیں تھا۔ آوازیں
بھولی بسری عورت
پل بھر کی مخصوص موسیقی کے بعد سکتہ سا آیا پھر ایک شائستہ آواز ابھری جس نے چند منٹ بعد جہاز کے اترنے کا اعلان کیا۔ طارق آنکھیں موندے نشست سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے ذہن کی اسکرین پر کئی چہرے، کئی آوازیں اور کئی مناظر بہ یک وقت ڈوبتے ابھرتے تیر رہے
مانوس
ہوا کا زور بڑھ گیا تھا۔ اب صاف معلوم ہونے لگا تھا کہ چھوٹی چھوٹی چک پھیریاں اٹھاتی اور ریت کے ہلکے ہلکے چھینٹے اڑاتی ہوا کی ان موجوں کے پیچھے کچھ اور ہے۔ صحراؤں کے آنگن میں پلنے بڑھنے والے کان اور آنکھیں ہوا کے بدن سے پھوٹتی خوشبو اور اس کا روپ بڑھاتی