محمد ہمایوں کے افسانے
نقب
ہوا یوں کہ خلیل بھائی کو کچھ دنوں سے یوں لگا جیسے کوئی ان کے گھر میں نقب لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کاخیال تھا کہ ہو نہ ہو کوئی ان کی جان کے درپے ہے۔ یہ بات انہوں نے مجھے میرے گھر انتہائی رازداری سے بتائی اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ ہو سکتا ہے یہ ہتھوڑا
پس دیوار
ابو موسی موسوعی ترمذی ؒکے بارے میں سید علی بن رضا ہمدانیؒ نے یہ لکھا ہے کہ وہ اصفہان کے دارالقضا میں قاضی کے معاون اور کلیہ قانون میں استاد تھے۔ آپ علوم فلسفہ میں بھی منفرد طریقہ استدلال رکھتے تھے اور اسی سبب فقہ، قانون پردسترس بے مثال رکھتے تھے۔ علاوہ
ایوارڈ
"صدیقی صاحب یہ دعوت نامے گنے چنے لوگوں کو بھیجے گئےہیں اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حکومت کس کو ایواڑد دینا چاہتی ہے۔۔شاید کسی بہت ہی خاص آدمی کو ۔۔۔مزے کی بات یہ کہ اس دوڑ میں آپ بھی شامل ہیں " یہ سب مجھے نعمت خاں صاحب نے بتایا اور یہ سلسلہ تب
شعبدہ باز
یہ میرے بچپن کی بات ہے اور مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔ میں خالہ کے ہاں جاوید کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ خالوایک اشتہار پکڑے اندر آئے ۔ ’’اری سنتی ہو فریدہ بیگم۔بنارس کا کوئی شعبدہ باز آرہاہے اب کی بار۔ نقوی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ تو اپنی آنکھیں اتنی باہر
اجنبی ملاقاتی
میں گھر آیا تو نیلوفر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ”جلدی کریں امی آپ کا انتظار کر رہی ہیں، بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہیں آ پ سے، پلیز جلدی کریں۔“ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ میں نے جلدی سے موٹر سائیکل اندر کھینچ کر پانی کی ٹینکی کے ساتھ کھڑی کی اور
ماں
میری والدہ بیمار کیا پڑیں کہ ان کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی اور سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ہم بھائیوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ کیا کریں۔ ہم بھائیوں سے تو یہ بھی فیصلہ نہ ہو سکا کہ ان کا عزیز ترین بیٹا کونسا ہے ۔ پتا نہیں کیا مرض تھا کہ
نصاب
جب ایک بہت ہی اہم سرکاری وزیر کی والدہ ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کی مبینہ غفلت سے جان بحق ہوگئیں تو انہوں نے جنازے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کو زدو کوب کرواکے تھانے میں اپنے ماتحتوں سمیت بند کروادیا ۔ ان کا غصہ اس بات سے بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور شام تک نرسوں
نرملا
وہ اتنی مشہور ہیروئن تو نہیں تھی لیکن جیسا کہ میں نے سنا اس کی اصل وجہ شہرت کچھ تصویریں تھیں۔۔۔ ذرا خاص قسم کی۔۔۔ جس سے اس نے خوب پیسہ کمایا۔ میں تصویریں تو نہیں دیکھ پایا لیکن اسے پہلی بار مجسم صورت میں سن سینتیس میں ’’ناچ نگری نگری‘‘ کے سیٹ پر دیکھا۔
پادشاہزادی عندلیب
ایک سپاہی زادے کی کہانی جس نے ایک مغویہ پادشاہزادی کو محل واپس لانے کا عزم کیا اور محیر العقول منزلوں سے گزرتا گیا اور آخر میںجب منزل کے قریب پہنچ گیا تو ۔۔۔
عالیہ
”انٹرویو والے روزمیں ویٹنگ روم میں بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کررہا تھا کہ دفعتاًایک طویل قامت اورقدرے پتلی جسامت والی ایک جوان خاتون جھٹ سے اندر آگئی اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے نسبتاً چست لباس پہن رکھا تھا اور سفید رنگ کا پتلادوپٹہ
اخطاص دیو
اخطاص دیو، گرجتا،برستا، چیختا، چنگھاڑتا، بے ہنگم ہاتھ اورستون نما ٹانگیں لئے بصد غرور ایک ایک سیڑھی پر پاوں رکھتا، ڈولتا ہوا قلعے سے نیچے اتر آیا۔ جب نگاہ کی تو اپنے عین سامنے پادشاہزادے کے لشکرِ آراستہ کوہوشیار، باندھے چار ہتھیار واسطے جدل کے ہر دم
سندباد
سندباد کا آٹھواں سفر اگلی رات دنیا زاد نے شہر زاد سے التجا کی۔ “اے میری ماں جائے، کچھ آج کا بیان بھی ہو جائے گی، کہ دل متمنی ہے کسی قصہ، حکایت یا روداد کا” । “بسر و چشم میری جان !لیکن پہلے نیک بخت بادشاہ کا اذن میسر ہو تب” । شہریار نے سر ہلا کر اجازت
وزیٹنگ کارڈ
”اب اِس لاش کا کیا کریں؟“ اس نے نفرت بھرے لہجے میں تاؤ کھاتی ناگن کی طرح پھنکارکرکہا۔ مجھے اس کا کچھ جواب نہ سوجھا۔ میں تو بلکہ اس لمحے کے بارے میں سوچنے لگا جب اس پرمیری پہلی نظر پڑی تھی۔ یہ سن چھیالیس کی بات ہے جب میری تیسری بڑی پینٹنگ ایگزیبیشن
شوکاز نوٹس
ہمارے بنس باغ والے دفتر میں تین آدمی ایسے ہیں جن میں دو کا نام میں اس افسانے صیغہ راز میں رکھوں گا لیکن سب کے بارے میں مجموعی طور پر البتہ یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ وہ سب کام چور ہیں۔ جی ہاں کام چور ہیں۔ مستقل لیٹ آتے ہیں اور ہمیشہ چھٹی کے
حلقہ مفرغہ
’’ایک نیکو کار یہودی ایک ایسے شہر میں داخل ہوجاتا ہے جہاں داخل ہونا تو آسان ہے لیکن وہاں سے نکلنا حد درجہ مشکل ۔۔۔
گرداب
یہ دسمبر سن ستر کی بات ہے اور میری انتخابات کی ڈیوٹی کراچی میں تھی۔ میں وہاں پریزایڈنگ افسر تھا اور میرے ماتحت تین پولنگ افسر تھے۔ ملک اس وقت شور اور شورش میں تھا، طویل تقریریں، الزامات، کچھ صحیح کچھ غلط، اور لمبے چوڑے بھاشن۔ ویسے تو شاید چوبیس پارٹیاں
صندوق
عاجز تھکن سے چور، بدن رنجور، فاقوں سے بدحال اور پیاس سے نڈھال تھا پھر بھی سفر میں توقف کو قرین مصلحت نہ جانا اور چلتا چلا گیا۔ بارے ایک دن کی مسافت پر دور سے ایک شہر کے آثار نظر آئے تو آنکھوں میں کچھ رمق پیدا ہوئی۔ ہرج مرج کھینچتا اس کے فصیل کے پاس جا
چنکارہ ہرن
بارہ اکتوبر انیس سو نناوے۔۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر یکلخت کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان تبدیلیوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی وجوہات کیا تھے، ملک میں یہ تبدیلی ضرور آئی کہ ہر چیز کی اصلاح کے لئے ایک باقائدہ متوازی محکمہ وجود
دو کھڑکیاں
لاہور کے ایک گھر کی ایک پرانی اور پر اسرار کھڑکی کا قصہ جو ایک آدمی کے لئے سوہان روح بن گئی تھی۔۔۔
کھمبا
"ارے بھائی یہ اتنا بڑا ستون گاڑنے کی بھلا کیا ضرورت پیش آئی؟ ایک عذاب ڈال دیا ہے "۔ یہ نیا مسئلہ ایسے پیش آیا کہ جب بجلی کے محکمےوالوں نے حساب لگایا تو ان کواپنی ماہانہ آمدنی میں اچھا خاصا خسارہ نظر آیا۔ ان کو اس بات کا پکا یقین تھا کہ ہماراسارا