منور لکھنوی شاعر تو تھے ہی ، شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی لیکن اس کے ساتھ ان کی پہچان کا ایک بڑا حوالہ ہندی اور سنسکرت زبان سے کئے گئے ان کے تراجم ہیں ۔ منور لکھنوی کو اردو ، فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان پر عبور حاصل تھا ۔
منور لکھنوی کا نام منشی بشیشور پرشاد تھا ۔ منور تخلص کرتے تھے ۔ ان کی پیدائش لکھنو میں 8 جولائی 1897 کو ہوئی ۔ ان کے والد منشی دوارکا پرشاد افق کا شمار لکھنؤ کے معززین میں کیا جاتا تھا ۔ وہ بھی شاعری کرتے تھے ۔ منور لکھنوی عمر بھر محکمہ ریلوے سے وابستہ رہے اور مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا ۔ 1927 میں وہ دلی آگئے اور پھر یہیں سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔
منور لکھنوی کی شاعری اپنے موضوعات اور زبان کے لحاظ سے اپنے معاصر شعری منظرنامے میں بہت الگ نظر آتی ہے ۔ اس کی وجہ ان کے تخلیقی عمل کی تہہ میں موجود فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان کی علمی روایت ہے ۔ منور لکھنوی کے کئی شعری مجموعے چھپے ۔ ان کے تراجم کی تعداد بھی خاصی ہے ۔ انہوں نے رامائن ، بھگوت گیتا اور دوسرے بہت سے مذہبی وغیر مذہبی متون کا منظوم ومنثور ترجمہ کیا ۔