منور بدایونی کے اشعار
پیچھے مڑ مڑ کر نہ دیکھو اے منورؔ بڑھ چلو
شہر میں احباب تو کم ہیں سگے بھائی بہت
علاج کی نہیں حاجت دل و جگر کے لیے
بس اک نظر تری کافی ہے عمر بھر کے لیے
جو دل کو دے گئی اک درد عمر بھر کے لیے
تڑپ رہا ہوں ابھی تک میں اس نظر کے لیے
اب کنج لحد میں ہوں میسر نہیں آنسو
آیا ہے شب ہجر کا رونا مرے آگے
نظر آتی ہیں سوئے آسماں کبھی بجلیاں کبھی آندھیاں
کہیں جل نہ جائے یہ آشیاں کہیں اڑ نہ جائیں یہ چار پر