نصیر احمد ناصر
غزل 13
نظم 14
اشعار 8
ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
رات بھر خواب دیکھنے والے
دن کی سچائیوں میں چیخ اٹھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بچوں کی کہانی 1
کتاب 30
تصویری شاعری 1
شب کی پہنائیوں میں چیخ اٹھے درد تنہائیوں میں چیخ اٹھے تہ_بہ_تہ منجمد تھکن جاگی جسم انگڑائیوں میں چیخ اٹھے دھوپ جب آئینہ_بدست آئی عکس بینائیوں میں چیخ اٹھے میں سمندر ہوں کوئی تو سیپی میری گہرائیوں میں چیخ اٹھے رت_جگے تن گئے دریچوں پر خواب انگنائیوں میں چیخ اٹھے جب پہاڑوں پہ برف گرنے لگے کوئی اترائیوں میں چیخ اٹھے جب پکارا کسی مسافر نے راستے کھائیوں میں چیخ اٹھے کچھ خموشی سے دیکھتے تھے مجھے کچھ تماشائیوں میں چیخ اٹھے رات بھر خواب دیکھنے والے دن کی سچائیوں میں چیخ اٹھے