ناز قادری کے افسانے
یہ نہ تھی ہماری قسمت
اور میری نظریں فرحتؔ پر جم سی گئی ہیں۔ یادوں کے دیے جگمگا اٹھے ہیں، ذہن کے پردے پر ماضی کی تصویریں اجاگر ہوگئی ہیں اور حال نے مجھے آج سے پانچ سال پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ کلاس میں پہنچتے ہی کریم کے چاروں طرف طلبا کا ہجوم دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج ضرور
یادوں کے دریچے
آج ساری کائنات چاندنی میں نہا رہی ہے نہیں بیوہ کی طرح سفید ساڑی میں ملبوس ہے۔ دور آسمان پر چاند سِسک رہا ہے، تارے سلگ رہے ہیں اور چاندنی دریچے سے میرے کمرے میں جھانک رہی ہے چاندنی جس کے ہونٹوں پر بیکراں اداسی ہے، جس کی آنکھوں میں غم کے سایے لہرا رہے
خوشبو تیری وفا کی
آج موسم کتنا خوش گوار ہے! ابھی ابھی زوردار بارش ہوکر تھم گئی ہے۔ لیکن نیلگوں آسمان کی بے کراں وسعت میں ابھی کالی کالی گھٹائیں چھارہی ہیں۔ سبزہ وگل پر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے، فضا کیف وسرور میں ڈوبی ہوئی ہے اور ہواؤں کے نرم نرم خُنک جھونکے فرحت بخش
اور زندگی مسکرانے لگی
اور اس کی نظریں مس نگار پر جم کر رہ گئیں۔ ’’ساجد! ارے او ساجد!! ذرا پروین سے کہنا سارے مہمان آمگئے۔ لیکن ڈاکٹر کا پتہ نہیں، فون پر دریافت کرے آخر کیا بات ہے؟‘‘ پرنسپل ریاض نے عینک صاف کرتے ہوئے چپراسی سے کہا اور پھر نئے مہمانوں کے استقبال کو آگے
پلکوں میں آنسو
اور آج میرا سارا سکون درہم برہم ہو گیا ہے!! درد کے تمام فاصلے سمٹ آئے ہیں۔ میرے سینے میں عجیب سی کسک چٹکیاں لے رہی ہے۔ شاید اس کے دل کا درد زہر بن کر میری روح کی گہرائیوں میں اتر رہا ہے اور میں امجد کے غم کی آگ میں سلگنے لگی ہوں۔ امجد شروع ہی سے
درد کب ٹھہرےگا!
آج تمہارا خط آیا ہے! یونیورسٹی سے آتے ہی سامنے میز پر پڑے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے لفافے کے پتے کی خوبصورت تحریر میں میری نظریں الجھ کر رہ گئی ہیں۔ یہ تحریر جانی پہچانی سی معلوم ہو رہی ہے۔میری نگاہیں ان پیاری پیاری تحریروں کو چومنے لگی ہیں اور تم اِن
تیرگی کے غار سے
’’چھت پر جانا منع ہے۔‘‘ ’’اپنے کمرے کی مشرقی کھڑکی ہمیشہ بند رکھنا۔‘‘ چچا جان کی یہ دو باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ میرے لاشعور میں طرح طرح کے سوالات ابھرتے ہیں؛ ذہن میں کتنے ہی خیالات جنم لیتے ہیں۔ چچا جان اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں چاندنی
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
اور تصویر اس کے ہاتھوں سے گر گئی! خوبصورت فریم ٹوٹ گیا۔ شکستہ شیشے کے ٹکڑے فرش پر بکھر گئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شیشے کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے دل کی گہرائیوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہے ہوں، ’’میں بیٹھ سکتا ہوں‘‘ اسلم مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’شوق
وہ ایک بات
آج سال کی آخری تاریخ ہے۔ پرانا سال دم توڑ رہا ہے اور نیا سال جنم لے رہا ہے۔ نئے سال کی آمد کے اہتمام میں رائل ہوٹل نئی نویلی دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ ہال میں مدھم سی رنگین روشنی پھیلی ہوئی ہے اور ماحول بےحد رومان انگیز ہے۔ آرکِسٹرا کی ہلکی سی دھن