نتن نایاب کے اشعار
خواب میں کوئی تو منزل انہیں دکھتی ہوگی
جاتے تو ہوں گے کہیں نیند میں چلنے والے
تمہارے ہجر کو وہ کم نصیب کیا سمجھے
جسے خبر ہی نہیں کس قدر حسیں ہو تم
گلی کے موڑ پہ بیوہ ہے بد نصیب کوئی
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتی ہے
عشق کی چادر لایا ہوں اور خاص بات یہ ہے اس میں
جتنے پیر پسارو یہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے
ہم اپنے پیروں کا ایک کانٹا نکالنے کے لیے رکے تھے
بس اتنے لمحے کا بیتنا تھا کہ ہم سے آگے نکل گئے سب
ہم لوگوں کو سمجھے اور نہ لوگوں نے ہم کو سمجھا
ہم لوگوں کو اور ہم کو سمجھا سمجھا کر ہارے لوگ
برسوں سے قطرہ قطرہ جو ہو رہی تھی یکجا
وہ منتشر خموشی اب شور ہو گئی ہے
دل وہ پروت کہ جو اک سمت جھکا جاتا ہے
غم وہ دریا کہ جو رہتا ہے رواں ایک طرف
سرد ہواؤں کا قبضہ تھا ساگر کے اس ٹاپو پر
میں نے اپنا اشک گرا کر آگ لگائی پانی میں
سر یوں جھکتے چلے جاتے ہیں کہ گر ہی نہ پڑیں
ایسی عزت مرے سرکار بری لگتی ہے
زخم نہیں معلوم چلا پر داغ کہاں کھو سکتا ہے
درد اسی کے آس پاس ہے اور کہاں ہو سکتا ہے
گئے برس تو سنو کہ سورج نے اتنی شدت سے آگ اگلی
کہ چھاؤں دینے کے واسطے جو شجر اگائے تھے جل گئے سب
خشک گل پھر بھی کتابوں میں بھلے لگتے ہیں
زنگ لگ جائے تو تلوار بری لگتی ہے
تجھ کو اس جسم کی رونق پہ بھلا کیوں ہے غرور
جس کی ضو قبر کی مٹی کے برابر بھی نہیں
اس تبسم نے تو بازی ہی پلٹ کر رکھ دی
اب مجھے دیکھ کے روتے ہیں رلانے والے
مستقبل اب کے تیرے تعاقب کی رو میں دیکھ
ماضی تو کیا میں حال سے آگے نکل گیا
کسی سمندر سے ایک قطرہ اگر نکل کر ندی کی جانب
قدم اٹھا لے تو وہ سفر اک مثال ہوگا کمال ہوگا
کہیں سے آ کر کچھ لہروں نے ڈبو ہی ڈالا تھا اور پھر
کہیں سے آ کر کسی نے میری جان بچائی پانی میں
ایسا کیا عشق جو رسوائی عطا کر نہ سکے
ایسی کس کام کی رسوائی کہ شہرت بھی نہیں