نشور واحدی کا تعارف
اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا
اہم تنقیدی خیالات
Kaleemuddin Ahmad
غزل شکن ناقد پروفیسر کلیم الدین احمد کی کتاب’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں ان کا یہ قول کہ’’غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے‘‘ غزل کے اشعار سے زیادہ مشہور ہے ۔ وہ جوانی میں جتنے خاموش رہا کرتے تھے،آخری ایام میں اتنا ہی زیادہ بولنے لگے تھے۔ایک ذرا سا موضوع چھیڑ دیجئے پھر وہ دیر تک بولتے رہتے تھے۔غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہنے والا ناقد اپنے ہی قاعدے کلیے سے دستبردار ہوگیا تھا۔ ایک روز میں نے پوچھا آپ تو غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہتے تھے، پھر اس کے قائل کیسے ہوگئے ؟ تو انہوں نے کہا ’’ میں ایک روز ریڈیو سن رہا تھا تو اس پر مشاعرہ براڈ کاسٹ ہونے لگا۔ ایک شاعر بہت اچھے لحن سے غزل پڑھ رہے تھے ان کی غزل کے اشعار نے جیسے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا میرے اندر ایک کوندا سا لپک گیا۔وہ اشعار یہ تھے: یہی کانٹے تو کچھ خود دار ہیں صحن گلستاں میں کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے سلیقہ جن کو ہوتا ہے غم دوراں میں جینے کا وہ یوں شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے قدم میخانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے
مأخذ: https://rekhta.org/ebooks/sawad-e-manzil-nushur-wahidi-ebooks-1?lang=ur