Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nushur Wahidi's Photo'

نشور واحدی

1912 - 1983 | کانپور, انڈیا

نشور واحدی کا تعارف

تخلص : 'نشور'

اصلی نام : حفیظ الرحمن

پیدائش : 15 Apr 1912 | بلیا, اتر پردیش

وفات : 04 Jan 1983

اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی

اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا

جمیل احمد کے فرزند ،سجیلی غزلوں کے شاعر ،نثار اور طبیب حفیظ  الرحمن دنیائے ادب میں نشور واحدی کے نام سے جانے گئے ۔والد فارسی کے عالم اور شاعرتھے ۔ وہ یکتا تخلص کرتے تھے ۔نانا عبد الرشید بھی فارسی کے عالم تھے ۔نشور کے گاؤں کی زبان بھوجپوری تھی ۔وہ موسیقی کی باریکیوں سے بھی واقف تھے ۔غلیل بازی اور مچھلی کے شکار سے انہیں لگاؤتھا ۔ پیدل چلنا پسند کرتے تھے ۔ایک زمانے میں وہ کانپور میں مشرقی علوم کے منتہی کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔کم سنی میں ہی معلم ہوئے اور بعد میں حلیم مسلم کالج کانپور میں اردو فارسی کے لکچرار بھی ہوئے ۔درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انہوں نے طب کی سند بھی حاصل کی ۔جب وہ 13سال کے تھے اور اکبر الہ آبادی کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایک مصرعہ طرح دیا گیا تھا ،اس کے بعد وہ شعر کہنے لگے ۔ابتدا میں فارسی میں شعر کہے ۔ نشور نے مزاحیہ شاعری بھی کی ۔قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انہوں الیہ نشور سے اپنا تخلص منتخب کیا۔ان کا ترنم بے حد دلکش تھا اور ایک زمانے میں مشاعرے میں بہت مقبول تھے ۔1977میں انہیں اردو کا مہاکوی بھی کہا گیا ۔مولانا روم کی مثنوی کا منظوم ترجمہ کیا ۔اسلامی فلسفہ حیات پر ان کی گہری نگاہ تھی ۔

اہم تنقیدی خیالات

poet

Kaleemuddin Ahmad

غزل شکن ناقد پروفیسر کلیم الدین احمد کی کتاب’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں ان کا یہ قول کہ’’غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے‘‘ غزل کے اشعار سے زیادہ مشہور ہے ۔ وہ جوانی میں جتنے خاموش رہا کرتے تھے،آخری ایام میں اتنا ہی زیادہ بولنے لگے تھے۔ایک ذرا سا موضوع چھیڑ دیجئے پھر وہ دیر تک بولتے رہتے تھے۔غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہنے والا ناقد اپنے ہی قاعدے کلیے سے دستبردار ہوگیا تھا۔ ایک روز میں نے پوچھا آپ تو غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہتے تھے، پھر اس کے قائل کیسے ہوگئے ؟ تو انہوں نے کہا ’’ میں ایک روز ریڈیو سن رہا تھا تو اس پر مشاعرہ براڈ کاسٹ ہونے لگا۔ ایک شاعر بہت اچھے لحن سے غزل پڑھ رہے تھے ان کی غزل کے اشعار نے جیسے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا میرے اندر ایک کوندا سا لپک گیا۔وہ اشعار یہ تھے: یہی کانٹے تو کچھ خود دار ہیں صحن گلستاں میں کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے سلیقہ جن کو ہوتا ہے غم دوراں میں جینے کا وہ یوں شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے قدم میخانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے

مأخذ: https://rekhta.org/ebooks/sawad-e-manzil-nushur-wahidi-ebooks-1?lang=ur

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے