پلو مشرا کے اشعار
میں ایک خانہ بدوش ہوں جس کا گھر ہے دنیا
سو اپنے کاندھے پہ لے کے یہ گھر بھٹک رہا ہوں
میں تجھ سے ملنے سمے سے پہلے پہنچ گیا تھا
سو تیرے گھر کے قریب آ کر بھٹک رہا ہوں
یہ طے ہوا تھا کہ خوب روئیں گے جب ملیں گے
اب اس کے شانے پہ سر ہے تو ہنستے جا رہے ہیں
یہ جسم تنگ ہے سینے میں بھی لہو کم ہے
دل اب وہ پھول ہے جس میں کہ رنگ و بو کم ہے
میں اپنی موت سے خلوت میں ملنا چاہتا ہوں
سو میری ناؤ میں بس میں ہوں ناخدا نہیں ہے
شہر جاں میں وباؤں کا اک دور تھا میں ادائے تنفس میں کمزور تھا
زندگی پھر مری یوں بچائی گئی میری شہ رگ ہٹا دی گئی یا اخی
-
موضوع : سوشل ڈسٹینسنگ شاعری
وہ نشہ ہے کے زباں عقل سے کرتی ہے فریب
تو مری بات کے مفہوم پہ جاتا ہے کہاں
تمام ہوش ضبط علم مصلحت کے بعد بھی
پھر اک خطا میں کر گیا تھا معذرت کے بعد بھی
مکین دل کو خانماں خراب سے عشق تھا
قیام ڈھونڈھتا رہا تمہاری چھت کے بعد بھی
ترے لبوں میں مرے یار ذائقہ نہیں ہے
ہزار بوسے ہیں ان پر پہ اک دعا نہیں ہے
تمام فرق محبت میں ایک بات کے ہیں
وہ اپنی ذات کا نئیں ہے ہم اس کی ذات کے ہیں
آنسوؤں میں مرے کاندھے کو ڈبونے والے
پوچھ تو لے کہ مرے جسم کا صحرا ہے کہاں