رابعہ الرباء کے افسانے
سویٹ ہارٹ
(دل جیسی اک بوند کی کیا اوقات سمندر بیچ) ’’اچھا سویٹ ہارٹ اب میں اسٹڈی کرنے جا رہا ہوں۔ Please Don't Disturb‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہونٹ چومے اور اس کے روم روم میں اپنا وجود چھوڑ کر شب خوابی کا لباس پہنتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا اور کمرے کا دروازہ
روح کا سفر
آسمانی پردوں پر، رائل بلیو لہروں میں، سفید پتوں کی باتیں، جب نیلے بیڈ پہ بچھے ریشمی رائل بلیوبستر کے موتیا پھولوں سے ہوتیں تو وہ الماری کے قریب بچھی آسمانی رگ پہ آ بیٹھتی اور بلیو کشن سے ٹیک لگا کر ان کی چھیر چھاڑ سنتی اور دیکھتی رہتی۔ یہ سب باظاہر بےجان
رات کی رانی
بہار کی قاتلانہ ہوا یوں محو رقص تھی کہ باغ کے تمام درخت، پودے، پتے، شاخیں بھی ان کے ہمراہ ناچ رہے تھے۔ پھولوں پہ دیوانگی کا عاشقانہ عالم طاری تھا، جو چھپائے نہیں چھپتا۔۔۔ اک اک پھول کی خوشبو اپنا حسن بکھرا چکی تھی اور اب یہ چھوٹے چھوٹے عشق مل کر اک بڑے
ساتویں سمت
وہ اپنی روح تلاش کرتی پھر رہی تھی، جس کا اس نے سودا کیا تھا، یا جو کہیں کھوئی تھی۔ گول گپا چہرہ، بھرے بھرے گالوں پہ سیاہ بڑی بڑی اداس آنکھیں جن کی اداسی چھپانے کے لیے وہ کا جل سے اوپر نیچے لکیریں بنایا کرتی تھی۔ سرخ انگاروں جیسے بھرے پرکشش ہونٹ جن
دستخط
وہ نشے میں د ھت مسلسل رم پیے جا رہا تھا۔ پا ر ٹی ختم ہو چکی تھی۔ سب رقص و سرور سے مدہوش جا چکے تھے۔ایک وہ اور ایک لڑکا جو اس کا سا تھ دے رہا تھا۔۔۔ وہ خود تو ریڈ بئیر تک محدود تھا اور بہت کم لے رہا تھا مگر اپنے باس کا ساتھ زر خرید غلام کی طرح سے دے رہا
حدت
دھوپ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کیے شگاف سے، انسانوں کے رویوں سے، مخلو ق کے سلوک سے برف پگھل پگھل کر نجانے کب سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ کہاں کس سے جھولتی ہے، کہاں کس کو چومتی ہے، کہا ں اس کا دم بے دم ہو جاتا ہے اور کہاں کس کی باہوں میں سو جاتی
بانیہ
یہ بہت حسین خنک و نم رات تھی ۔ ستارے آسمان پر مسکرا رہے تھے ۔ چاند آسما ن پر اور زمین پر بہت دن بعد آیا تھا۔ سو مست مسرور سے نیم سفید بادل اس کے گرد مدھر رومانوی رقص میں اترا رہے تھے۔ وہ چاند تھا اپنی مستی میں مست، نازاں۔ کہ چاہے جانے کا بھی تو اک الگ
راج مہر
میں کیا کرتی میرے پر کاٹ دئیے گئے تھے۔ میری سوچ کے در بند کر کے ان پر تالے لگا دئیے گئے تھے۔ جن پہ زنگ نے میرے دشمنوں سے وفا کی، میری آنکھوں پہ شریعت نام کے پردے ڈال دئیے گئے تھے۔ ہاتھوں سے کتاب چھین کر، ایک مقدس کتاب مجھے تھما دی گئی، جسے میں پڑھ سکتی
جگنوؤں کے دیس میں
دور دور تک پانی، گھنے درختو ں کی چھا یہ، مدھر چلتی ہوا ئیں، چاروں اور ایک سحر انگیز کیف۔ یہا ں خواہ مخواہ ہی مو ر محو رقص رہتا ہے۔ شام ہوتے ہی اس کے بچپن کی کلی اور کلی میں بیٹھی معصومیت کِھل اْٹھتی۔ رنگ برنگی تتلیا ں اِ دھر اْدھر اْڑتی پھر تیں۔ کبھی
آخری فلائٹ
ماؤف ذہن میں صرف ایک سوچ تھی میں کیسے ان کا سامنا کروں گا۔ مجھ سے نہیں ہوگا یہ سب۔ میرے میں ہمت نہیں رہی۔۔۔ کیا کہوں گا، ان کو اور کیسے کہوں گا۔۔۔ ان سے نگاہیں کیسے ملاؤں گا، میں کر ہی کیا سکا ہوں ان کے لئے۔۔۔! وہ۔۔۔! انہوں نے ہمارے لئے کیا کچھ نہ
سیلیبریشن
واہ شاہ نواز کیا تقریر لکھی ہے تو نے۔۔۔! منسٹر صاحب کی تو ہر طرف واہ واہ ہو رہی ہے کہ اتنا بڑا عاشق رسولؐ، سبحان اللہ!، صالح نے گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مخمور آواز میں کہا۔ ’’بس یار سب گیم ہے گیم، یہ زندگی، یہ لفظ، سب گیم ہے۔ And we all are
کامو فلیگ
میں اپنی پہلی شادی کا کارڈ بہت خوشی خوشی اسے دینے گیا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ وہ صاف انکار کر دے گا صاف انکار۔۔۔ میرے ذہن میں کئی طرح کے خیال آئے مگر کسی گمان کسی وسوسے پہ یقین نہیں آتا تھا کیوں کہ وہ میرااتنا پرانا یار تھاکہ کوئی پردہ باقی
نروان
بدھسوا تنہا بیٹھی سوچ رہی تھی کہ سدھارت بدھا کیسے بن گیا۔ اس کو نروان کیسے مل گیا۔ برہمنیت کا غرور خاک میں ملا نا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ نا ہی بدھی ریاضت میں کوئی آسانی تھی۔ ضبط کے بھی روزے کی انتہا، تو پھر نروان کیسے اور کیونکر مل سکتا ہے۔ اس کی سوچیں