راہی شہابی اپنے وقت کے ایک مقبول شاعر تھے۔ ان کی پیدائش ریاست خیلیا ضلع بلندشہر یوپی میں 22 جنوری 1948ء کو ایک زمیندار خاندان میں ہوئی۔ ان کے دادا کنور تحسین علی خان جےپور کی فوج میں کمانڈر ان چیف تھے اور ان کے والد کنور یاسین علی خان شاعر اور مصنف تھے، جو شہاب برنی کے نام سے مقبول تھے۔
راہی شہابی صاحب نے اپنی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعدازاں جےپور میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بڑے فرزند جناب وجاحت علی شہابی راجستھان مائنوریٹی کمیشن میں بطور ترجمان مقرر ہوئے۔ ان کے چھوٹے بیٹے شبہات علی شہابی کا کم عمری میں ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ ان کی دختر محترمہ شگفتہ شہابی کا نکاح تبریز علی سے ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے دس سال بعد ان کا حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا۔
راہی شہابی صاحب ایک عرصے تک جےپور میں وزیر آعلیٰ کے پریس اٹاچی رہے اور پھر وہاں سے ڈپٹی ڈائریکٹر آف پبلک ریلیشن کے عہدے سے 1993ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی پہلی نظم "پیغام" 1953ء میں شائع ہوئی لیکن ایک اور خوبصورت نظم "ایک لمحہ" ان کی پہچان بنی جو انہوں نے انڈوپاک مشاعرے لال قلعہ دہلی میں پڑھی۔
راہی شہابی کے ادبی شاہکاروں میں "کاروان زندگی"، "میرا وطن میری زبان"، "تاج محل"، "دستک"، "ایک لمحہ" شامل ہے۔ انہوں نے 1971ء میں جےپور سے ایک اخبار "بدلا ہوا زمانہ" نکالا جو پانچ سال بعد کسی وجہ سے بند ہو گیا۔ وہ راجستھان اردو اکیڈمی کے سیکریٹری اور چیئرمین رہے۔ جےپور میں ایک تویل بیماری کے بعد 2005ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n89235653