راجندر سنگھ بیدی کے اقوال
ہر معقول آدمی کا بیوی سے جھگڑا ہوتا ہے کیونکہ مرد عورت کا رشتہ ہی جھگڑے کا ہے۔
اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ مہمان کا درجہ بھگوان کا ہے تو میں بڑی نمرتا سے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ مجھے بھگوان سے بھی نفرت ہے!
بیوی آپ سے کتنی نفرت کرتی ہے، اس کا اس وقت تک پتا نہیں چلتا، جب تک مہمان گھر میں نہ آئے۔ جیسے آپ کو بھولنے کے سوا کچھ نہیں آتا، ایسے ہی بیوی یاد رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ جانے کب کا بغض آپ کے خلاف سینے میں لیے بیٹھی ہے جو مہمان کے آتے ہی پنڈورا باکس کی طرح آپ کے سرپر الٹ دیتی ہے۔
کوئی فنکار اپنے پیشے سے روٹیاں نہیں نکال سکا۔ لیکھک کو ساتھ میں پیاز کی دکان ضرور کھولنی چاہیے۔
ہر بیوی کسی انتقامی جذبے سے چاہتی ہے کہ مرد کو وہ بے بھاؤ کی پڑیں کہ نانی یاد آجائے اور پھر وہ بے دست و پا ہو کر اس کی شرن میں چلا آئے۔ جب وہ اسے ایسا پیار دے جو ماں ہی اپنے بچے کو دے سکتی ہے۔
دنیا میں حسین عورت کے لیے جگہ ہے تو اکھڑ مرد کے لیے بھی ہے، جو اپنے اکھڑپن ہی کی وجہ سے صنفِ نازک کو مرغوب ہے۔ فیصلہ اگرچہ عورت پہ نہیں، مگر وہ بھی کسی ایسے مرد کو پسند نہیں کرتی جو نقل میں بھی اس کی چال چلے۔
فن کسی شخص میں سوتے کی طرح نہیں پھوٹ نکلتا۔ ایسا نہیں کہ آج رات آپ سوئیں گے اور صبح فن کار ہو کر جاگیں گے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں آدمی پیدایشی طور پر فن کار ہے، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس میں صلاحیتیں ہیں، جن کا ہونا بہت ضروری ہے، چاہے وہ اسے جبلت میں ملیں اور یا وہ ریاضت سے ان کا اکتساب کرے۔ پہلی صلاحیت تو یہ کہ وہ ہر بات کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محسوس کرتا ہو، جس کے لیے ایک طرف تو وہ داد و تحسین پائے اور دوسری طرف ایسے دکھ اٹھائے جیسے کہ اس کے بدن پر سے کھال کھینچ لی گئی ہو اور اسے نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہو۔
افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں۔ ہے، تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک ایسی لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بحیثیت فن، شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔
میں خفا ہوں، بے حد خفا! انسان سے، دیوی سے، خدا سے اور اس تجاہل سے جسے انسانیت کا ایک بہٹ بڑا حصہ خدا کے نام سے یاد کرتا ہے۔
غزل کا شعر کسی کھردرے پن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن افسانہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کھردرا پن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیز ہو سکے۔
یہ طے بات ہے کہ افسانے کا فن زیادہ ریاضت اور ڈسپلن مانگتا ہے۔ آخر اتنی لمبی اور مسلسل بحر سے نبردآزما ہونے کے لیے بہت سی صلاحیتیں اور قوتیں تو چاہئیں ہی۔ باقی اصنافِ ادب، جن میں ناول بھی شامل ہے، ان کی طرف جزواً جزواً توجہ دی جا سکتی ہے، لیکن افسانے میں جزو و کل کو ایک ساتھ رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا ہر اول، متداول اور آخری دستہ مل کر نہ بڑھیں تو یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔