رؤف پاریکھ کی بچوں کی کہانیاں
میرے استاد میرے محسن
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں
میری عمر چھ ماہ ہے میرا نام ماں باپ نے اللہ جانے کیا رکھا ہے۔ شاید خود ان کو بھی یاد نہ ہو کیونکہ سب لوگ مجھے عجیب عجیب ناموں سے پکارتے ہیں۔ کوئی ببلو کہتا ہے، کوئی پپو اور کوئی گڈو تو کوئی لڈو۔ اللہ جانے ان بڑوں کو نام بگاڑنے میں کیا مزہ ملتا ہے۔ شاید
کہاوتوں کی کہانیاں1
اونٹ کے گلے میں بلی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔ ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا
کہانی ایک جھیل کی
دور بہت دور، شہروں سے بہت دور، ایک ہرا بھرا، خوبصورت اور پرسکوں جنگل تھا۔ اس جنگل کے بیچوں بیچے ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہہ میں اگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔ جھیل کی تہہ میں پڑے ہوئے