ریحان علوی کے افسانے
سوگ میں جشن
’’ارے بھئی! اپنے کتے کو سنبھال کر رکھو، ورنہ کسی دن زہر ہی دے ڈالو ں گا کم بخت کو۔‘‘ ’’بھئی زہر کی کیا ضرورت ہے۔ بس اپنی ایک کِلو کی بوٹی دے دینا۔ اگر چودہ انجکشنوں سے بچ بھی گیا تو بیچارہ صحیح العقل کہاں رہے گا؟‘‘ ’’اوہو! آپ اپنے چہیتے کتے کی محبت
گھر کا نہ گھاٹ کا
(ایک سچی کہانی جسے فسانے کا روپ دیا گیا) کمرے میں گھپ اندھیرا تھا مگر رام لعل کی آنکھوں میں سویرا جاگ رہا تھا۔رام لعل کا گزرا کل جو نجانے کب سے کنڈلی مارے بیٹھا تھا، آج پھر سر اٹھا کر پھنکارنے مارنے لگا تھا۔ ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ دیوار پر لگے
لکھنؤ سے لاہور تک
انگریز حکومت کے خلاف جنگِ آزادی کے دوران سلطنتِ اودھ کی آخری مزاحمت کی نشانی حضرت محل ایک جرأت مند خاتون کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ مگر اسی اودھ میں کئی چھوٹے بڑے نواب اور درباری خاندان سے تعلق رکھنے والے اور بھی عورتیں تھیں جو شائید اتنی با ہمت نہیں
آئینہ اور چہرے
میں جیل کی چٹائی پر لیٹا اُن سلاخوں کو دیکھ رہا ہوں جس کے باہر ایک آزاد دنیا ہے۔ باہر چاروں طرف پُر ہول سناٹا اورگھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے مگر میرے اندر کی دنیا میں، مَن کی دنیا میں سچائی، محبتوں اور امیدوں کے جگنو جگمگا رہے ہیں۔ کسی قیدی کی بیڑیوں کی
اچھے مسیحا ہو
ویسے تو بیماری کوئی اچھی نہیں ہوتی مگر معمولی کے زمرے میں آنے والی تکالیف میں دانتوں اور اس کے ڈاکٹروں سے ہمیں اللہ واسطے کا بیر رہا ہے۔ اسے شو مئی قسمت کہیے یا انتقامِ زمانہ کہ جن لوگوں سے ہماری روح کانپے، اُن سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ ہمارا اشارہ ہر گز
درد بڑھتا گیا
’’درد بڑھتا گیا‘‘ قلمکار اظہر کلیم کی ادارت میں نکلنےوالے رسالے اشارہ کے جون 1986 کے غیر معمولی کہانی نمبر میں شائیع ہوئی۔رسالے نے کہانی کی پیشانی پر مسکراتی چہکتی دلچسپ کہانی کا طغریٰ لگایا۔۔۔ دلچسپ اختتام تک پہنچنے کے لئے دس منٹ پاس رکھئے گا۔۔۔ ’’شرافت