ریحان علوی کے افسانے
آئینہ اور چہرے
میں جیل کی چٹائی پر لیٹا اُن سلاخوں کو دیکھ رہا ہوں جس کے باہر ایک آزاد دنیا ہے۔ باہر چاروں طرف پُر ہول سناٹا اورگھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے مگر میرے اندر کی دنیا میں، مَن کی دنیا میں سچائی، محبتوں اور امیدوں کے جگنو جگمگا رہے ہیں۔ کسی قیدی کی بیڑیوں کی
گھر کا نہ گھاٹ کا
(ایک سچی کہانی جسے فسانے کا روپ دیا گیا) کمرے میں گھپ اندھیرا تھا مگر رام لعل کی آنکھوں میں سویرا جاگ رہا تھا۔رام لعل کا گزرا کل جو نجانے کب سے کنڈلی مارے بیٹھا تھا، آج پھر سر اٹھا کر پھنکارنے مارنے لگا تھا۔ ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ دیوار پر لگے
سوگ میں جشن
’’ارے بھئی! اپنے کتے کو سنبھال کر رکھو، ورنہ کسی دن زہر ہی دے ڈالو ں گا کم بخت کو۔‘‘ ’’بھئی زہر کی کیا ضرورت ہے۔ بس اپنی ایک کِلو کی بوٹی دے دینا۔ اگر چودہ انجکشنوں سے بچ بھی گیا تو بیچارہ صحیح العقل کہاں رہے گا؟‘‘ ’’اوہو! آپ اپنے چہیتے کتے کی محبت
لکھنؤ سے لاہور تک
انگریز حکومت کے خلاف جنگِ آزادی کے دوران سلطنتِ اودھ کی آخری مزاحمت کی نشانی حضرت محل ایک جرأت مند خاتون کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ مگر اسی اودھ میں کئی چھوٹے بڑے نواب اور درباری خاندان سے تعلق رکھنے والے اور بھی عورتیں تھیں جو شائید اتنی با ہمت نہیں
درد بڑھتا گیا
’’درد بڑھتا گیا‘‘ قلمکار اظہر کلیم کی ادارت میں نکلنےوالے رسالے اشارہ کے جون 1986 کے غیر معمولی کہانی نمبر میں شائیع ہوئی۔رسالے نے کہانی کی پیشانی پر مسکراتی چہکتی دلچسپ کہانی کا طغریٰ لگایا۔۔۔ دلچسپ اختتام تک پہنچنے کے لئے دس منٹ پاس رکھئے گا۔۔۔ ’’شرافت
بڑھاپا بڑی نعمت ہے
(آسٹریلیا میں قائیم بزرگوں کی فلاحی تنظیم سماؑ کے جشنِ بزرگ کے موقع پر ۲۰۱۸ میں شائع ہونےوالے سالانہ مجّلے میں شائع ہوا۔) کسی عمر رسیدہ سیانے کا کہنا ہے کہ ہم اس لٗیے ہنسنا بند نہیں کرتے کیونکہ ہم بوڑھے ہو گئے ہیں بلکہ ہم اس لٰٗیے بوڑھے ہو جاتے ہیں