تمام
تعارف
ای-کتاب203
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے ڈرامہ
کارل مارکس
آں کلیمِ بے تجلّی آں مسیحِ بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب (اقبال) تمام دنیا کی نگاہیں آج کل رُوس پر جمی رہتی ہیں۔ آج سے پہلے بھی جمی رہتی تھیں مگر ان نگاہوں میں تمسخر کی ایک جھلک تھی۔ ایک قسم کا استہزا تھا۔ یورپ میں سیاست کی ٹیڑھی ٹوپی
آؤ اخبار پڑھیں!
لاجونتی: (بڑ ے اشتیاق بھرے لہجے میں) آؤ اخبار پڑھیں! (کاغذ کی کھڑکھڑا ہٹ) کشور: (چونک کر)کیا کہا؟ لاجونتی: کہہ رہی ہوںآؤ اخبار پڑھیں! کشور: پڑھو‘ پڑھو‘ ضرور پڑھو۔۔۔ شکر ہے کہ تمہیں کچھ پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ لاجونتی: جی۔۔۔ گویا میں بالکل ان پڑھ
اکیلی
افراد سوشیلا : (ایک نوجوان عورت جس کی آواز میں رت جگے کی خرخراہٹ ہو) کشور : (ایک دولتمند آدمی۔۔۔۔۔۔ آواز میں با نکپن ہو) موتی : (ایک جذباتی نوجوان) چپلا : (ایک عام کنواری لڑکی) مدن : (کشورکا دوست) قلی : اور چار پانچ آرکسٹرا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ریل
محبت کی پیدائش
(خالد سیٹی بجارہا ہے۔سیٹی بجاتا بجاتا خاموش ہو جاتا ہے پھر ہولے ہولے اپنے آپ سے کہتا ہے) خالد: اگر محبت ہاکی یا فٹ بال کے میچوں میں کپ جیتنے‘تقریر کرنے اور امتحانوں میں پاس ہو جانے کی طرح آسان ہوتی تو کیا کہنے تھے۔۔۔مجھے سب کچھ مل جاتا۔۔۔سب کچھ(پھر
ساڑھی
افراد کوی : (مالتی کا چاہنے والا) مالتی : (جوان لڑکی) مالتی کی ماں : سیٹھ : (مالتی کا دولت مند عاشق) کوی کا دوست: اور تین چار فالتو آدمی : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (مشین چلانے کی آواز۔۔۔۔۔۔کبھی ہولے ہولے کبھی تیز تیز) مالتی: (مشین چلاتی جاتی
خود کشی
عورت: آج کل کے زمانے کی فیشن ایبل عورت چچا: پرانی وضع کے بزرگ ہیر: ہیررانجھا ڈرامہ کی ہیر۔ وہی لباس نوکرانی: جوان عورت خادماؤں کے لباس میں پردہ اُٹھتا ہے سٹیج پر بالکل اندھیرا چھایا ہے سامنے ایک عورت کرسی پر بیٹھی ہے بال کھلے ہیں صرف اس کے چہرے پر
انصاف
دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔ چوبدار: باادب: با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، شہنشاہِ عالم لنچ کے لیئے تشریف لارہے ہیں۔ شہنشاہِ عالم کے قدموں کی بھاری چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف
انتظار
(گھڑی آٹھ بجاتی ہے) منتظر آدھا گھنٹہ........ صرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ........ یہ ٹن کی آخری آواز دیتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی۔اور ........ اور........ منتظر کا منطقی وجود........ اگر وہ نہ آئی ........ یعنی اگر........ منتظر: کیوں نہ آئے
غالب اور سرکاری ملازمت
حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔ مسجد کی زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا کا ہے آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔ کوئی
ہتک
فیڈان۔۔۔ پیالی اور پرچ بجانے کی آواز آئے جو آہستہ آہستہ قریب آتی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ہوٹل کے چھوکرے کی سیٹی کی آواز بھی آئے جو کسی فلمی دُھن میں ہو۔۔۔ بمبئی میں ہوٹل کے چھوکرے جو ہوٹل سے باہر چائے وغیرہ لے کر جاتے ہیں ’’باہر والے‘‘ کہلاتے ہیں یہ عموماً
آؤ جھوٹ بولیں!
لاجونتی: (ایکا ایکی‘بڑے اشتیاق سے)آؤ جھوٹ بولیں! کشور: ارے۔۔۔تمہیں بیٹھے بیٹھے یہ کیا سوجھی؟ لاجونتی: نہیں ‘نہیں۔۔۔آؤ جھوٹ بولیں! کشور: پھر وہی۔۔۔جھوٹ بولیں؟۔۔۔کس سے جھوٹ بولیں؟ ۔۔۔او رپھر۔۔۔تم نے مجھے۔۔۔ لاجونتی: (بات کاٹ کر) کوئی جھوٹا سمجھا ہے‘
کروٹ
(میز پر کھانا چُننے اور چھری کانٹے رکھنے کی آواز) بیوی: چلیئے کھانا تیار ہے۔ لڑکی: کون آرہے ہیں؟ میاں: تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔ ایک عورت آنے والی ہے۔ بیوی: عورت؟ میاں: ہاں جو ہماری ہمسایہ ہے۔ لڑکی: ہمارے پڑوس میں تو کوئی عورت نہیں رہتی۔ میاں: بھولتی
تین خوبصورت عورتیں
(ایک خوبصورت بیڈ روم۔ ساگوان کے دوپلنگ پاس پاس پڑے ہیں ایک پر جمیلہ سو رہی ہے اور خراٹے لے رہی ہے۔ شکیلہ اس کو جگانے کی کوشش میں لگی ہے۔ اس کمرے کی ہر شے خوبصورت ہے۔ تین تصویریں جو لٹک رہی ہیں۔ مغربی آرٹ کے دلفریب نمونے پیش کرتی ہیں کونے میں ڈریسنگ ٹیبل
نیلی رگیں
افراد سعید: (شاعر۔ آواز میں جذبات کا ہجوم۔خوش گفتار) کرشن: (سعید کا دوست) ثُریّا: ایک اجنبی عورت۔ متلون مزاج) سعید: (ذیل کے اشعار پڑھتا ہے) مرمریں پیکر یہ نیلم کے خطوط سرد ہے دنیائے خواب میرے برفانی تصوّر میں مگر بہہ رہا ہے نیلگوں سیماب سا جس
ایک مرد
پہلا منظر زنانہ کالج کے ہوسٹل کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ مختصر سازو سامان، لیکن ہر چیز سلیقے اور قرینے سے رکھی نظر آتی ہے۔ کمرے کے دو حصے ہیں ایک آگے، دوسرا پیچھے ۔بیچ میں دیوار ہے لیکن اس میں دو بڑے بڑے بغیر کواڑوں کے دروازے ہیں ان میں سے ایک کمرے کا دوسرا
ٹیپو کی موت
جولیس سیزراورسکندرِ اعظم کے بعد دنیا کے بڑے سپہ سالار اور فاتحوں کی فہرست میں نپولین کا نام آتا ہے ۔ اسکندر اور جولیس سیزر کی فتوحات کو ایک زمانہ گزر چکا ہے ۔۔۔ آج کل نپولین کا نام ہی سب سے پیش پیش ہے کہ یورپ سے ابھی تک اس جنگ جو انسان کے دہشت ناک کارناموں
چنگیز خان کی موت
آج سے سات سو سال پہلے کا ذکر ہے ایک شخص آندھی کی طرح اُٹھا اور قریب قریب ساری دنیا پر چھا گیا ۔اس شخص کا نام’’ چنگیز خان ‘‘تھا ۔جس کی دہشت ایک زمانہ تک لوگو ں کے دلو ں پر طاری رہی۔زندگی میں اس کو بہت سے خطاب ملے‘کسی نے اس کو ’’انسان کو ہلاک کرنے والا
کمرہ نمبر9
افراد شیریں : (ایک شوخ و شنگ لڑکی۔۔۔۔۔۔تیز گفتار) زمان : (بے پروا سا آدمی۔۔۔۔۔۔شیریں کا بھائی) فضلو : (گھر کا خادم) رانی : (بھنگن) ناصر : (شیریں کا ایک چاہنے والا) **** (دروازے پر ایک ہاتھ پڑنے کی آواز) زمان: دیکھو شیریں۔ دستک نہ دو۔۔۔۔۔۔ پڑھو
آؤ کہانی لکھیں!
لا جونتی: اپنے پتی سے اشتیاق بھرے لہجے میں۔۔۔ آؤ کہانی لکھیں۔ کشور: (چونک کر)کہانی؟ لاجونتی: ہاں ہاں‘کہانی کشور: میں لکھنا نہیں جانتا‘کہو تو ایک سُنادوں۔ لاجونتی: سُناؤ۔ کشور: سُنو۔۔۔ایک تھی کہانی اُس کی بہن تھی نہانی‘اُس کا بھائی تھا بسولا۔اُس
ٹیڑھی لکیر
افراد جاوید : اسلم : الطاف : (جاوید کے دوست) جمیل : عباس : گل خان : (نوکر) معلن : (جو ریڈیو کے اعلان پڑھے گا) ایک گوّیا : (جو اقبال کے شعر گائے گا) مجید : (شہنائی کی آواز۔۔۔۔۔۔ آرکسٹرا وہ دُھن بجا رہا ہے جو عام طور پر بیاہ شادی کے موقع پر
قلو پطرہ کی موت
قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔اس کا حُسن کئی ا نقلابو ں ‘اور خونریزیو ں کا با عث ہوا۔۔۔ اس ساحرہ کے حُسن وعشق کے قصے جہا ں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں۔وہا ں تمام دنیا کو معلو م ہیں۔ قلو پطرہ مصر کے نا لائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی
آؤ بات تو سنو!
(ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرنے کی آواز سنائی دیتی ہے) کشور: ٹائپ کرتے ہوئے خط کے آخری الفاظ بولتا ہے۔ PLease Note That The Payment of Rs 24/8/- AND. Not Rs: 49/4/= Will Be Made To You in Due Course. Yours Faithfully, Copy to A ccountant For Information کشور: ٹائپ
کیا میں اندر آسکتا ہوں
افراد نعیم: (ایک آزاد خیال نوجوان) اور چند’’آنا منع ہے‘‘ کے بورڈ (بالکل آہستہ آہستہ وہ دُھن سازوں پر بجائی جائے جس میں�آگے چل کر اس ڈرامے کا ہیرو ایک غزل گائے) نعیم: (ایک لمبی سانس لے کر)۔۔۔۔۔۔کیسی پُر فضاجگہ ہے۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں
بیمار
افراد کمار : (بیمار) گڈوانی : رشید : بیدی : کمار کے دوست آتما سنگھ : مادھو : کمار کا نوکر (کھانسنے کی آواز سنائی دیتی ہے) کمار: (کھانستا ہے) مادھو۔۔۔مادھو۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔مادھو۔۔۔ مادھو: (آواز دُورسے آتی ہے) جی آیا صاحب۔ کمار: ادھر آ بھاگ
تیمور کی موت
۔۔۔ پانچ سو برس سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے جب ایک آدمی نے ساری دنیا پر قابض ہونا چاہا۔ جس کام میں اس نے ہاتھ ڈالا کامیاب ہوا ۔۔۔ نصف دنیا سے زیادہ کے لشکروں کو اس نے یکے بعد دیگرے نیچا دکھایا۔ کئی شہروں کو بیخ و بنیاد سے اکھیڑ پھینکا۔ ان کی اینٹ سے اینٹ
رُوح کا ناٹک
کردار نمبر ایک رُوح کا ناطق وجود نمبر دورُوح کا جذباتی وجود نمبر تین رُوح کا سرمدی وجود بیوی نمبر ایک بیوی کے متعلق نمبر ایک کا خیال بیوی نمبر دو بیوی کے متعلق نمبر دو کا خیال رقاصہ نمبر ایک رقاصہ کے متعلق نمبر ایک کا خیال رقاصہ نمبر دورقاصہ کے
تحفہ
افراد جگل : (آواز میں بے نیازی ہو) شیلا : (خوش آواز لڑکی) گنیش : تعلیم یافتہ بنیا۔ بولنے کا جچا تلا انداز ایک لڑکی : شیلا کی سہیلی دکاندار : (ان پڑھ بنیا۔ جھگڑالوقسم کا آدمی) رامو : (نوکر) کالج کا گھنٹہ بجتا ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی کئی قدموں کی آواز شیلا: جگل۔۔۔۔۔۔جگل! جگل: او۔۔۔۔۔۔شیلا شیلا: میں
گاف گُم
حامد: (ٹائپ کرتے ہوئے) پا۔۔۔کس۔۔۔تان۔۔۔ میں۔۔۔تع۔۔۔لی۔۔۔می۔۔۔فلم۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔(کاٹ کر) فلمو۔۔۔ ں۔۔۔کی۔۔۔ اہمیت۔۔۔ پر۔۔۔ ابھی۔۔۔ تک۔۔۔غور۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیا۔۔۔گیا۔۔۔ لیکن یہ گاف کدھر گیا۔۔۔۔۔۔ ارے سچ مچ یہ گاف کدھر ہے۔لاحول ولا ملتا ہی نہیں (سلیمان داخل
شاہجہان کی موت
اپنے فتح مند بیٹے محی الدین اورنگزیب کی قیادت میں جب شہاب الدین شاہجہاں نے آگرے کے دروازے کھول دیئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اپنی عُمر کا بقایا حصّہ قلعے میں ایک قیدی کی حیثیت میں گزارنا پڑا۔ شاہجہان کے لیئے جو کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کا شہنشاہ تھا
جرنلسٹ
(بہت سے لڑکے پہاڑے یاد کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایک شور مچاہے۔۔۔۔۔۔ بیچ بیچ میں میز پر بید مارنے کی آواز بھی آتی ہے۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ شور فیڈآوٹ ہو جائے۔) عبدالباری: ۔۔۔۔۔۔کیا واہیات پن ہے۔۔۔۔۔۔یہ سوائے۔ڈیوڑھے ڈھائے۔اونچے پونچے اور ڈھونچے کے پہاڑے کیا بکواس
راسپوٹین کی موت
راسپوٹین دنیا کا سب سے بڑا گنہگار اور بدخصلت انسان جو روس میں پیدا ہوا، ولی یقین کیا جاتا تھا، مگر درحقیقت وہ ایک شیطان تھا جس کے ہاتھوں زارِ روس کی عظیم الشان سلطنت برباد ہوئی اس کی گناہوں بھری زندگی اس قدر حیرت خیز ہے کہ اس پر کسی خیالی افسانے کا گمان
تین خاموش عورتیں
منظر (اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرنے کا صوتی منظر۔۔۔خوانچہ فروش کا شوروغیرہ) نوٹ: ثریا بہت تیزی سے بولے جیسے کترنی چل رہی ہے۔ ثُریّا: دیکھنا کہیں کوئی چیز نہ ٹوٹ جائے۔۔۔ ساری چیزیں بڑے سلیقے سے باہر نکالو اور قرینے سے پلیٹ فارم پر رکھ دو۔۔۔ سُنتے ہو بڑے میاں۔۔۔
اس منجدھارمیں
(میلو ڈراما) کردار بیگم : ماں(شکستہ) امجد/مجید : بیگم کے بیٹے(ثابت و سالم) سعیدہ : امجد کی نئی نویلی حسین بیوی اصغری : خادمہ کریم اور غلام محمد : نوکر پہلا منظر: (نگارِ ولا کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ اس کی خوبصورت شیشہ لگی کھڑکیاں پہاڑی کی ڈھلوانوں کی
چوڑیاں
افراد حامدکالج کا ایک جواں طالب علم ،طبیعت شاعرانہ سعیدحامد کا دوست ڈپٹی صاحب حامد کے والد ثُریّاحامد کی بہن حمیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں حامد کی ماں دکان دار۔حمیدہ کی ایک سہیلی۔تاروالا اور ایک ملازم۔ پہلا منظر کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔۔۔ہر چیز قرینے سے
تین تحفے
(فیچر) راگ اور محبت دل پر ایک جیسا اثر کرتے ہیں۔ دونوں کے سرُ ایک جیسے نرم ونازک اور تیزو تُند ہیں‘ دونوں میں تلخی وشیرینی پہلو بہ پہلو کروٹیں لیتی ہے دونوں رُوح کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ موسیقی محبت سے زیادہ طاقتور ہے........وادی نیل میں
بابر کی موت
۔۔۔اسٹیج پر ہر روز ڈرامے کھیلے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کتنے معنی کے لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں ۔۔۔ دراصل خامکاری اسٹیج کا قانون ہے۔اگر کسی ڈرامے کا پہلا ایکٹ شاندار ہے تو اس کے آخری ایکٹ پہلے ایکٹ کی جان کے قدموں میں دم توڑتے نظر آئیں گے۔ اگر کسی ڈرامے کا
تین انگلیاں
افراد باٹلی والا۔۔۔شوہر شیریں۔۔۔بیوی جگن ناتھ۔۔۔جوہری کرنل امر ناتھ۔۔۔مہمان پولیس انسپکٹر اور دو تین سپاہی ایکٹ پہلا پہلا منظر ایک پُر تکلّف طریقے پر سجا ہوا ڈرائنگ روم۔کھڑکیوں پر ریشمی پردے لٹک رہے ہیں۔قالین بچھا ہوا ہے جو کہ بہت دبیزہے۔ باٹلی
نقش فریادی
افراد سہیل : (شاعر) نجمہ : (محبت زندہ عورت) اور تین چار محبت فروش عورتیں نوٹ: ذیل کا تمہیدیہ شاعرانہ انداز میں پڑھا جائے۔ اس کے عقب میں کوئی ایسا ساز بجتا رہے جو موزوں و مناسب ہو۔ تمہیدیہ: شاعر شعر لکھتے آئے ہیں اور لکھتے رہیں گے جذبات کے دھارے
تین صلح پسند عورتیں
افراد: مرزا سعیدہ: (مرزا صاحب کی بیوی۔ صلح پسند عورت) ثریا: (سعیدہ کی لڑکی) ممتاز: (صُلح پسند عورت نمبر ۲) عائشہ: (صُلح پسند عورت نمبر ۳) منظر: فراخ اور کشادہ کمرہ معمولی فرنیچر سے آراستہ ہے۔ مگر اس آرائش میں حسن نظر نہیں آتا۔ چیزیں جابجا بکھری
عید کارڈ
افراد مسعود : (آواز میں اداسی ہو) خالد : خلیل : مسعود کے دوست عام نوجوانوں جیسے ثُریّا : (کم سن لڑکی) ڈاکیہ : **** (ٹائپ کرنے کی آواز) مسعود: (ٹائپ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مضمون پڑھتا جاتا ہے)۔۔۔۔۔۔اس زمانے کی جنگوں کے لیئے سب سے ضروری چیزیں لوہا
کٹاری
(پوری تفصیلات کے ساتھ فلمی کہانی) فلم کے عنوان ختم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آخری عنوان کے عقب میں’’بہارستان‘‘ کا ٹریڈ مارک ہے۔۔۔۔۔۔ ایک پھول اور دو کلیاں۔۔۔۔۔۔ ہم ڈزالو کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی سرکار کی حویلی سے ملحقہ باغ ٹریڈ مارک کا پھول اور کلیاں،
تلوّن
بارش کا شور........آہستہ آہستہ یہ شور شدّت پکڑتا ہے۔ نیلم: (ڈرے ہوئے لہجہ میں)کھڑکی بند کر دو جمیل........باہر رات کا اندھیرا ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہو۔۔۔اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے۔ جمیل: (جلدی سے)اتنی بھیانک
تین موٹی عورتیں
کردار تین موٹی عورتیں: ایک پتلی عورت (۱) مسز بلی موریا۔ (پیرن) (ا) شیریں (مسز فوجدار) (۲) مسز باٹلی والا (فرینی) (۲) شیریں کا باپ (۳) مسز چٹرجی (پدما) (۳) ایک نوکر (۴) ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ پہلا منظر: (اسٹیج دو حصوں میں منقسم ہے یوں ایک بڑا اور ایک
آؤ بحث کریں!
لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں‘ اپنے پتی سے)آؤ بحث کریں۔ کشور: بحث کریں۔۔۔کس سے بحث کریں؟ لاجونتی: تم تو یوں بات کر رہے ہو گویا بحث کو جانتے ہی نہیں۔۔۔ساری عمر گزر گئی تمہاری بحث کرتے کرتے اور آج کتنے انجان بن رہے ہو۔ ننھے نادان روٹی کو ٹوٹی اور
جُرم اور سزا
افراد شنکر : (اخبار نویس) کملا : (سیٹھ مگن لال کی نوکرانی) کندن : (سیٹھ مگن لال کا لڑکا) سیٹھ مگن لال : (بگڑا ہُوارئیس) انسپکٹرعبدالحمید : (خفیہ پولیس کا آدمی) اور چندا خبار بیچنے والے چھوکرے (سسکیوں کی آواز۔۔۔۔۔۔ پھربھاری قدموں کی آواز۔۔۔۔۔۔
سلیمہ
(تالیوں کا شور۔۔۔۔۔۔چند لمحات کے بعد یہ شور بند ہو جائے) پرنسپل: یہ رسم جب سے میں اس کا پرنسپل مقررّہُوا ہُوں۔ ہر سال باقاعدہ ادا کی جاتی ہے ہر سال اس موقعہ پر تالیوں کے شور کے ساتھ اپنی کرسی سے اُٹھتا ہوں اور قریب قریب وہی تقریر کرتا ہوں جو میں نے
آؤریڈیوسُنیں!
لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں اپنے پتی سے)آؤریڈیو سنیں۔ کشور: (خاموش رہتا ہے)۔ لاجونتی: اجی اوسنتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔توبہ‘ تمہارا دماغ کیا ہے ریڈیو کا ڈبہ ہے جوہر دوسرے تیسرے روز خراب ہو جاتا ہے۔ کچھ میں بھی تو سنوں جناب کا مزاج اس وقت کس بات
ماچس کی ڈبیا
دیدی (گہرا سانس لے کر) تواب مجھے اس کمرے میں رہنا ہو گا۔۔۔ کیا کہتے ہیں بمبئی کی زبان میں ایسے کمروں کو۔ پال: کھولی۔ دیدی: کتنا واہیات نام ہے۔۔۔ غربت کی توہین ایسے ہی بدنما ناموں سے تو ہوتی ہے۔۔۔کھولی۔۔۔ یعنی جس نے چاہا کھول لی۔۔۔ مجھے غریبی سے اتنی