صادقہ نواب سحر کے افسانے
وہیل چیئر پر بیٹھا شخص
ایئر پورٹ کی شاندار اور مشہور ڈیوٹی فری دوکانوں میں نیلے یونیفارم میں کام کرنے والی لڑکیاں خریداری میں مسافروں کی مدد کر رہی تھیں۔ ٹرمینل ون کی انڈیگو اے ئر لائنس کا ابھی اعلان نہیں ہوا تھا۔ صائمہ دوکان سے باہر نکل کرذرا سستانے کو اور وقت گزانے کو قطار
ٹوٹی شاخ کا پتہ
کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔ ’’شیزو!‘‘ اس نے بےاختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی
بے نام سی خلش
’’ہیلو مس چودھری!‘‘۔ ممبئی جیسے اجنبی شہر میں ریلوے اسٹیشن پر ایک خوب رُو نوجوان کو اپنے کو وش کرتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ بہت دیر سے وہ روبی کے انتظار میں پلیٹ فارم کی ایک خالی بینچ پر بیٹھ کر پریشان نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ ’’فرمائیے
شیشے کا دروازہ
’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘، میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا،’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘ جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی
دیوار گیر پینٹنگ
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی ، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں
پیج ندی کا مچھیرا
دھوپ چڑھے پیج ندی کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دھوپ سے گہرائے گہرے سانولے رنگ کے مرد بارود کو آگ دکھا کر ندی میں پھینک رہے تھے۔ پھٹ پھٹ کی آوازیں آس پاس کے گاوؤں میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ جمعرات کا دن تھا۔ مہادو آج ذرا دیر سے ندی پر پہنچا تھا۔ وہ
ہوٹل کے کاؤنٹر پر
’ہوٹل روشنی پیلیس‘ کے کاؤنٹر پر نام پتہ درج کرواکر اپنی چابی لے رہا تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔ سوٹ بوٹ پہنے کسرتی بدن کا وہ شخص جس کی آنکھوں پر گہرے ہرے گاگلس لگے ہوئے تھے اور کنپٹی پرسفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ سیاہ مونچھوں
راکھ سے بنی انگلیاں
بنگلور سے ممبئی آنے کے بعد مجھے ذہنی سکون نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کسی اچھے علاقے میں اچھا کرایہ ادا کرکے رہنے کا اہل نہیں تھا۔ ممبئی میں مکان کا ملنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا۔ بہت کوششوں کے بعدجس بلڈنگ میں مجھے جگہ ملی
اکنامکس
دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیرخواہوں سے ملنے چلا گیا۔ دراصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔اختر ان
سہمے کیوں ہو انکش!
مسزپاٹل بہت پریشان تھیں۔ شرمندہ بھی تھیں۔ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا شریر بچہ شرارتوں میں اِس حد تک بڑھ جائے گا کہ انہیں پورے قصبہ میں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ انکش نام کا انکش یعنی بندھن تھا مگر اس پر کوئی بندھن عائد نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک لمحہ خاموش