قیامت خیز ہے سرخی یہ پانوں کی لب تر میں
خدا جانے یہ دونوں لال ہیں کس کے مقدر میں
سید فرزند احمد دنیائے ادب میں صفیر بلگرامی کے نام سے جانے گئے ۔وہ کثیر التصانیف ادیب تھے ۔ان کی کتاب جلوہ خضر، آب حیات پر اپنی صحت مند تنقید کی وجہ سے یادگار ہے ۔ ناول جو ہر مقالات (تین جلدوں میں ) کی فضا آفرینی اورجزئیات نگاری بھی ان کی تخلیقی صناعی کا ثبوت ہیں۔ جد مادری حضرت صاحب عالم صاحب مشہور شاعر تھے ۔ کہتے ہیں غالب ان کو خاص عقیدت سے یاد کرتے تھے ۔ان کے جد امجد سید خورشید علی بھی فارسی کے مشہور شاعر تھے ۔ پردادا سید بندہ علی بندہ اور دادا سید غلام علی یحیٰ بھی شاعر تھے۔ والد سید عبد الحئی ، میر سید احمد کے نام سے جانے گئے ۔ صفیر کے بقول وہ عاصی تخلص کرتے تھے ۔صفیر نو سال کی عمر میں ہی اپنے نابینا نوکر سے قصہ گل بکاولی سنتے اور اس کو قلمبند کرتے تھے ۔ایک وقت میں وہ اپنے ہم جماعتوں سے نثر کی خوبی اورنظم کی مخالفت میں بحثیں کیا کرتے تھے ۔خطاطی کے فن سے واقف تھے ۔ اسی زمانے کے ایک مخصوص کاغذ شیورام پوری جو نیا نیا متعارف ہوا تھا ان کے داددا نے ان کو ایک دستہ ایک روپے میں خرید کر دیا۔چودہ پندرہ سال کی عمر تک فارسی شاعری کی طرف توجہ رہی ۔انہوں نے میر حسن کی وضع پر ایک مثنوی بھی لکھی ۔شاعری میں انہوں نے اپنا پہلا تخلص قطب رکھا ۔اس کے بعد سات سال کے عرصے میں چھ تخلص رکھے ۔قطب ،آثم ،اثیم ،صبا ،نالاں ،احقر اور صفیر۔غالب اور دبیر سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ان کی تصنیف محشرستان خیال میں اردو اور انگریزی شاعری سے بحث کی گئی ہے اس ضمن میں ایک تمثیلی مجلس مذاکرہ بھی منعقد کیا گیا ہے۔