ساغر خیامی کا تعارف
تخلص : 'Saghar'
اصلی نام : رشیدالحسن
پیدائش : 07 Jun 1936 | اتر پردیش
رشتہ داروں : ناظر خیامی (بھائی)
آم تیری یہ خوش نصیبی ہے
ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے
ساغر خیامی کا شمار طنزومزاح کے ممتاز ترین شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ان کی پیدائش ۷ جون ۱۹۴۶ کو لکھنؤ کے ایک علمی اور تہذٰبی گھرانے میں ہوئی ۔ پرانے لکھنؤ کا یہ گھرانہ اپنی تہذیبی پاسداریوں اور اپنی ادبی اور عملی سرگرمیوں کے لئے معروف تھا ۔ ساغر خیامی کے دادا ان کے والد اور ان کے بھائی سب شاعری کرتے تھے ۔ ساغر نے ابتدا میں غزل کی روایتی قسم کی شاعری کی لیکن اپنے بھائی ناظر خیامی (جو طنز ومزاح کے ایک اچھے شاعر تھے) کے اثر سے طنز ومزاح کی شاعری کی طرف آگئے ۔
ساغر کی ابتدائی تعلیم عربی و فارسی سے ہوئی اس کے بعد انہوں نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے غیر تدریسی عملے سے وابستہ ہوگئے ۔
ساغر کے شعری مجموعے ’انڈر کریز‘ اور ’پس روشنی‘ ’ قہقہوں کی بارات ‘ ’ کچھ وہاں کیلئے‘ بہت مقبول ہوئے ۔ ساغر کی نظموں میں طنز ومزاح دنوں ایک ساتھ گھل مل گئے ہیں ان کی نظموں میں ایسی صورتحال بنتی ہے کہ پڑھنے اور سننے والا ہنستے ہنستے اداس ہونے لگتا ہے اور اپنے آس کی بظاہر سہی سالم نظر آنے والی دنیا کو ایک بہت بدلی ہوئی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے ۔ ساغر ہمارے اس مہذب معاشرے کی منافقتوں کو بہت چالاکی سے طنز کا نشانہ بناتے ہیں ۔ غالب کو مرکز میں رکھ کر کہی گئیں ساغر کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں ۔’ غالب اپارٹمینٹ ‘ ’ غالب دلی میں ‘ آج بھی بہت دلچسپی سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں ۔ ساغر مشاعروں میں بھی اپی ہی ایک لے میں کلام پڑھتے تھے ۔ ۱۹ جون ۲۰۰۸ کو ممبئی میں ان کا انتقال ہوا ۔
ساغر کی ابتدائی تعلیم عربی و فارسی سے ہوئی اس کے بعد انہوں نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے غیر تدریسی عملے سے وابستہ ہوگئے ۔
ساغر کے شعری مجموعے ’انڈر کریز‘ اور ’پس روشنی‘ ’ قہقہوں کی بارات ‘ ’ کچھ وہاں کیلئے‘ بہت مقبول ہوئے ۔ ساغر کی نظموں میں طنز ومزاح دنوں ایک ساتھ گھل مل گئے ہیں ان کی نظموں میں ایسی صورتحال بنتی ہے کہ پڑھنے اور سننے والا ہنستے ہنستے اداس ہونے لگتا ہے اور اپنے آس کی بظاہر سہی سالم نظر آنے والی دنیا کو ایک بہت بدلی ہوئی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے ۔ ساغر ہمارے اس مہذب معاشرے کی منافقتوں کو بہت چالاکی سے طنز کا نشانہ بناتے ہیں ۔ غالب کو مرکز میں رکھ کر کہی گئیں ساغر کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں ۔’ غالب اپارٹمینٹ ‘ ’ غالب دلی میں ‘ آج بھی بہت دلچسپی سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں ۔ ساغر مشاعروں میں بھی اپی ہی ایک لے میں کلام پڑھتے تھے ۔ ۱۹ جون ۲۰۰۸ کو ممبئی میں ان کا انتقال ہوا ۔