سحر علیگ کے اشعار
شاہزادے ہوں ولی ہوں کہ سخن دان شہر
جب وہ دکھتا ہے کوئی اور کہاں دکھتا ہے
شرم و حیا نے باز رکھا اس قدر ہمیں
سایا بھی ان کا دیکھ کے ہم سرنگوں کریں
میں دنیا چاہتی ہوں نہ دنیا کی رفعتیں
میری طلب نجات ہے بس اور کچھ نہیں
ڈھونڈا کیے خدا کو مگر مل نہیں سکا
مسجد میں بت کدے میں کلیسا میں دیر میں
اپنے اجداد کی دستار کو دیکھا اور پھر
کر لیا دل کی تمنا سے کنارہ میں نے
یہ جبر ہے عزت ہے محبت ہے کہ کیا ہے
بنتی ہی نہیں آپ سے انکار کی صورت
ڈھل گئی وصل کی شب ڈوب گیا دل کا چراغ
اب وہیں بیٹھے رہیں آپ جہاں تھے بیٹھے