میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا
نام اختر علی رحمت اور صہبا تخلص تھا۔۳۰؍ستمبر۱۹۳۱ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ تعلیم وتربیت والدہ کی سرپرستی میں بریلی اور علی گڑھ میں ہوئی۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔ نامساعد حالا ت کی وجہ سے وہ مزید تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے انھوں نے کئی جگہ ملازمت کی۔ بعدازاں محکمۂ خوراک میں انسپکٹر ملازم ہوگئے اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچے۔ صہبااختر کو شعر وسخن کا ذوق اوائل عمر سے تھا۔ان کا کلام ملک کے مقتدر ادبی رسالوں میں چھپتا تھا۔ریڈیو سے وابستہ ہونے کے بعدگیت لکھے اور ان گیتوں کی بدولت فلم لائن میں پہنچے۔ سات سال تک روزنامہ’حریت‘ سے وابستہ رہے۔ روزنامہ ’مشرق‘ میں قطعات بھی لکھتے رہے۔صہبا اختر نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزلوں کی نسبت نظمیں زیادہ کہی ہیں۔ انھوں نے ملی نغمے اور دوہے بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔۱۹؍فروری۱۹۹۶ء کو کراچی میں اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’سرکشیدہ‘(شعری مجموعہ)، ’اقراء‘، ’سمندر‘،’ مشعل‘۔ اعزاز: صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:258