صاحب علی کی بچوں کی کہانیاں
کووں کا اسکول
ایک تھا لیموں کا پیڑ۔ ایک تھا آم کا درخت۔ لیموں کے پیڑ پر کوے کا گھونسلا تھا۔ آم کے درخت پر کویل کا گھونسلا تھا۔ لیموں کے پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کر کوا چلاتا، ’’کائیں کائیں‘‘ آم کی ڈال پر بیٹھ کر کویل گاتی، ’’کوکو۔‘‘رنگ سے دونوں ہی کالے تھے لیکن کہاں
پھول اور بچے
ماسٹر کے ہاتھ میں آج چھڑی نہیں تھی۔ چاک بھی نہیں تھا۔ ان کے ہاتھ میں آج پھول تھے۔ رنگ برنگے بہت سارے پھول تھے۔ جاسندی کے، گلاب کے، گل شبو کے اور موگرے کے۔ کلاس خوشبو سے معطر ہو گئی۔ بچوں کو خوب مزا آیا۔ وہ ناچنے لگے۔ ’’ماسٹر صاحب آج پھول لے کر
تالاب میں گرا ہوا چاند
ایک جنگل میں ایک بڑا سا تالاب تھا۔ اس تالاب کے کنارے بہت سارے پیڑ تھے۔ ان پیڑوں پر کچھ بندر رہتے تھے۔ بندروں کے بچے بڑے شریر تھے۔ وہ سارا دن چلاتے، لڑتے اور دنگا فساد کرتے رہتے۔ بڑے بندر انہیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے لیکن وہ ان کی سنتے ہی نہیں تھے۔ ایک
پگڈنڈی
ہرے پیلے گھاس کےمیدان سے ٹیڑھا میڑھا راستہ بناتی وہ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی۔ آس پاس اگی ہوئی پھولوں کی جھاڑیوں اور ہری ہری بیلوں سے وہ قریب قریب ڈھک گئی تھی۔ پر لی طرف تھوڑے ہی فاصلے سے ایک بڑی سڑک گزرتی تھی۔ اس راستے پر ہمیشہ لوگوں کا آنا جانا
مداری
راستے میں ایک مداری بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے ڈگڈگی بجا رہا تھا ڈگڈگی کی آواز سن کر ہم سب وہاں جمع ہو گئے مداری کے پاس ایک بڑی سی ٹوکری تھی۔ ٹوکری میں سے اس نے ایک گہرے پیلے رنگ کا ناگ باہر نکالا۔ مداری اپنی بین بجانے لگا۔ناگ اپنا
سدو کی قمیص
سدو بہت ہی غریب لڑکا تھا۔ اس کے پاس پہننے کے لیے ڈھنگ کی قمیص بھی نہیں تھی۔ پھٹی ہوئی قمیص پہن کر ہی وہ باہر پھرتا۔ ایک دن وہ کھیت میں پھر رہا تھا۔ وہاں اسے ایک کپاس کا پودا نظر آیا۔ کپاس کے پودے نے کہا ’’کیوں رے لڑکے، پھٹی ہوئی قمیص پہن کر کیوں
چرمرائی ہوئی پتنگ
چھ بج چکے ہوں گے۔ دیوار سے سائے اترنے لگے تھے۔ کویلوں کی چھت پر سنہری دھوپ اب تک سستا رہی تھی۔ گلی کے موہانے پر چھوٹا رامو کھڑا تھا۔وہ پتنگ اڑا رہا تھا۔ پتنگ کیا تھی ایک کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے کو آڑا ٹیڑھا پھاڑ کر بنائی گئی تھی۔ اس کے ایک کنارے پر چندی
بنی کی دیوالی
ایک دن صبح ہمارے آنگن میں ایک واسودیو آیا۔ سر پر مور کے پروں والی ٹوپی، بدن پر ایک لمبا گھیر دار جبہ، کندھے پر رنگ برنگا پھٹا ہوا انگوچھا اور پیر میں ایک پھٹا ہوا جوتا۔ ایسا اس کا ٹھاٹھ تھا۔ ایک ہاتھ سے کرتال بجاتے ہوئے وہ گاتا رہا۔ ’’پنڈھری کے
کوئل کو کو کیوں کرتی ہے
دو بہنیں تھیں۔ ایک کا نام کو اور دوسری کا نام سو۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی محبت تھی۔ سارا وقت دونوں مل کر کھیلتی پھرتیں اور ناچتیں۔ بیساکھ کے دن تھے۔ آم کے درخت پر بور لگ گئے تھے۔ سو نےکہا ’’کو چلو ہم بور لانے کے لئے جائیں۔‘‘ کو نے کہا ’’ٹھیک
بچھڑا واپس کیسے آیا؟
ایک چرواہا تھا۔ اس کے ایک لڑکا تھا۔ وہ مویشیوں کو چارہ کھلا کر اور انہیں لے کر گھر لوٹنے لگا۔ ان میں ایک گائے کا بچھڑا تھا۔ وہ واپس نہیں لوٹ رہا تھا۔ وہ بس گھاس کھاتا رہا۔ تب لڑکا پتھر پر بیٹھ کر رونے لگا۔ کہیں سے آیا ایک خرگوش۔ خوگوش نے پوچھا ’’ارے
لکڑی کے چوکور ٹکڑے کی ڈرائنگ
گھنٹی دوبارہ بجی۔ تیسرا پریڈ شروع ہوا۔ ڈرائنگ ماسٹر کلاس میں داخل ہوئے۔ بچوں نے اپنی کتابیں بند کرکے بستوں میں رکھ۔ ڈرائنگ کی کاپیاں باہر نکالیں۔ ماسٹر نے پنسلیں تقسیم کیں۔ ربر رکھے۔ کچھ پنسلوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ چاقو لے کر بچے پنسل کی نوک بنانے
چندا ماما کا کرتا
رات کا وقت تھا۔ خوب ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ آسمان میں چاند ننگا ہی گھوم رہا تھا۔ چاند اپنی ماں کے پاس گیا اور بولا’’ماں، ماں مجھے بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے، مجھے ایک کرتا سل کر دوگی؟‘‘ قریب ہی بہت سے بادل بکھرے ہوئے تھے۔ ماں نے ایک سفید بادل لیا اور چاند کو ایک
وڑی کھاؤں گا کڑم کڑم
ایک تھی بڑھیا۔ اس نے آنگن میں وڑیاں سکھانے کے لیے ڈال رکھی تھیں۔ کہیں سے آیا ایک کوا۔ وہ ایک وڑی اٹھا کر چمپت ہونے لگا۔ بڑھیا قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے کہا ’’اے، رکھ دے وڑی نیچے! کہاں لے بھاگ رہا ہے؟ چونچ دھوکر آ تب وڑی دوں گی۔‘‘ کوا
شریر ہوا
دوپہر کی دھوپ کم ہو گئی تھی۔ ایک سفید بادل آسمان میں مغرب کی سمت آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ شریر ہوا اس خیال میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی کہ کسے چھیڑا جائے۔ بادل کو دیکھ کر اس نے کہا ’’کیوں بھئی کہاں جا رہے ہو؟ رکو! کیوں نہ ہم ساتھ میں کھیلیں؟‘‘ بادل