ساحر ہوشیار پوری
غزل 28
نظم 3
اشعار 13
اپنی اپنی ذات میں گم ہیں اہل دل بھی اہل نظر بھی
محفل میں دل کیوں کر بہلے محفل میں تنہائی بہت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
وہ اور ہوں گے پی کے جو سرشار ہو گئے
ہر جام سے ہمیں تو نئی تشنگی ملی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 11
رباعی 2
بچوں کی کہانی 1
کتاب 27
تصویری شاعری 2
وہ جس کو ہم نے اپنایا بہت ہے اسی نے دل کو تڑپایا بہت ہے ہمارے قتل کی سازش کے درپئے ہمارا نیک ہم_سایہ بہت ہے دل_درد_آشنا شوق_شہادت محبت میں یہ سرمایہ بہت ہے عجب شے ہے چمن_زار_تمنا ثمر کوئی نہیں سایہ بہت ہے خطا اس کی نہیں دل کو ہمیں نے تمناؤں میں الجھایا بہت ہے خدا محفوظ رکھے آسماں کو زمیں کو اس نے جھلسایا بہت ہے تری یاد آئی ہے تو آج ہم کو دل_گم_گشتہ یاد آیا بہت ہے بہ_نام_حضرت_ناصح بھی اک جام کہ اس نے وعظ فرمایا بہت ہے نہ کیوں ٹھکرائیں ہم دنیا کو ساحرؔ ہمیں بھی اس نے ٹھکرایا بہت ہے
غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا ہم نے مرنا بھی جو چاہا تو وسیلہ نہ ملا مدتوں بعد جو آئینے میں جھانکا ہم نے اتنے چہرے تھے وہاں اپنا ہی چہرہ نہ ملا قتل کر کے وہ غنیموں کو جو واپس آئے اپنے ہی گھر میں انہیں کوئی شناسا نہ ملا ہم بھی جا نکلے تھے سورج کے نگر میں اک دن وہ اندھیرا تھا وہاں اپنا بھی سایہ نہ ملا تشنہ_لب یوں تو زمانے میں کبھی ہم نہ رہے پیاس جو دل کی بجھا دیتا وہ دریا نہ ملا مل گئے ہم کو صنم_خانوں میں کتنے ہی خدا ڈھونڈنے پر کوئی بندہ ہی خدا کا نہ ملا آپ کے شہر میں پیڑوں کا نہیں کوئی شمار دو گھڑی رکنے کو لیکن کہیں سایہ نہ ملا سبز پتوں سے ملا ہم کو بہاروں کا سراغ شاخ_نازک پہ مگر کوئی شگوفہ نہ ملا مستحق ہم تری رحمت کے نہ ہونے پائے تیری دنیا میں کوئی عذر خطا کا نہ ملا خود_نمائی کے بھی اس دور میں ہم کو ساحرؔ کوئی قاتل نہ ملا کوئی مسیحا نہ ملا