سلیم احمد کے مضامین
نئی نظم اور پورا آدمی: صرف نئے پڑھنے والوں کے لیے
عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ آپ عورت کو خوب صورت الفاظ سے خوش نہیں کرسکتے۔ صرف زیور، کپڑے اور نان ونفقے سے بھی نہیں۔ یہاں تک کہ صرف اس کام سے بھی نہیں جسے محبت کہتے ہیں اور جس کی حمدوتقدیس شاعری کا ازلی و ابدی موضوع ہے۔ عورت یہ سب چیزیں
غزل، مفلر اور ہندوستان
کہتے ہیں نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے لیکن اردو شاعری کی پچھلی سو سالہ تاریخ میں عضو رئیس پر گرا ہے یعنی غزل پر۔ غدر کے ہنگامے میں انگریزوں سے مار کھانے کے بعد روشن خیال مسلمانوں کو اپنی جو چیز سب سے بری لگی وہ یہی بدنام صنف سخن تھی۔ روشن خیال مسلمانوں سے
غالب کی انانیت
یہ تو سبھی کہتے ہیں کہ غالب کے مزاج میں انانیت تھی۔ لیکن کسی شاعر کو اس کے مزاج کی بنا پر پسند یا ناپسند کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اسے لمبا یا ٹھگنا ہونے کی بنا پر مطعون کریں یا سراہیں۔ شاعری میں اصل مسئلہ مزاج نہیں ہوتا کیونکہ مزاج تو حالات سے،
نئی شاعری، نامقبول شاعری
نئی شاعری کی تمام قسموں میں، ان کے تنوع اور اختلاف کے باوجود ایک چیز مشرک ہے، ’’نامقبولیت۔‘‘ آپ اسے پسند کریں یا ناپسند، اس سے خوش ہوں یا ناراض، اس پر شرمندہ ہو یا نازاں، نئی شاعری تمام کی تمام نامقبول شاعری ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس بات کو آگے
حالی سے لامساوی انسان تک
آپ نے غزل اور نظم کا مسئلہ ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے کہ جب مجھے تو شاعری ہی رخصت ہوتی نظر آ رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کچھ عرصے بعد نہ غزل باقی رہےگی نہ نظم۔ ممکن ہے کہ یہ میرے ذاتی احساس شکست کا نتیجہ ہو یا قنوطیت پسندی کا، لیکن میرے پاس میرے اپنے
پاکستانی ادب کا مسئلہ
پاکستانی ادب وہ ادب ہے جو پاکستان کے بارے میں ہو۔ اس حساب سے بہترین ادب پاکستانی گائیڈ ہے۔ ایک دوسر ی بات اور کہی جا سکتی ہے۔ پاکستانی ادب وہ ہے جو پاکستان میں لکھا جائے۔ اس تعریف کی رو سے پاکستان میں جو ادب لکھا جا رہا ہے پاکستانی ہے اور اس پر بحث و
سر سید، ریل گاڑی اور کوکاکولا
اہل انگلستان کی کیا بات ہے۔ ان کی دھواں گاڑی جب ہندوستان آئی اور مشرق کے عظیم دیدہ ور غالب نے اس کی زیارت کی تو حیران رہ گیا۔ مہوشان کلکتہ کے چلائے ہوئے تیر اس پر مستزاد، ہائے ہائے کرتا ہوا کلکتہ سے واپس ہوا اور جب تک زندہ رہا اہل انگلستان کے قصیدے
ادھوری جدیدیت
جدیدیت کی روح یہ اصول ہے کہ کسی بات کواس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ ہم سے پہلے سے چلی آ رہی ہے، یا ہم پر خارج سے عائد کی گئ ہے یا ہم سے بالاتر ہے بلکہ ہر چیز کے حسن وقبح، خیروشر، منفعت ومضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے۔ اس لیے جدیدیت کے
اسلامی ادب کا مسئلہ
ادب اسلامی کی تحریک جتنے زور سے شروع ہوئی تھی اتنے زور سے چلی نہیں۔ بس کچھ دن دوڑنے کی کوشش کرکے بیٹھ گئی اور اب تو کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا۔ ترقی پسند تحریک کی طرح یہ بھی صرف ماضی کے حوالے کی ایک چیز ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن ترقی پسند تحریک
اردو شاعری میں جور و جفا کی روایت
اب یہ بات ماہرین عمرانیات کا موضوع بننے لگی ہے کہ انسان کے جسمانی ارتقا کا مطالعہ اس وقت تک یک طرفہ اور نامکمل ہے جب تک اس کے روحانی ارتقا کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ ہر حیوان کے لیے ماحول اور اس کی ضروریات ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے مطابقت اس کی
نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار
سب سے پہلے میں اکادمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے اہم اجتماع میں، جس میں ملک کی مقتدر ترین سیاسی، علمی، ادبی اور تہذیبی شخصیتیں موجود ہیں، ایک اتنے ہی مہتمم بالشان موضوع پر مجھے اپنے ناچیز خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔
میرزا یگانہ کی شاعری
یگانہ صاحب کے انتقال پر ایک تعزیتی نوٹ لکھتے ہوئے میں نے ان کی شاعرانہ اہمیت اور قدروقیمت کے بار ے میں بھی اپنے تاثرات قلم بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس موقع پر میں نے لکھا تھا کہ اردو شاعری کی محدود مختصر دنیا میں بیسویں صدی کے بعض بنیادی مسائل کی تفہیم
عشق اور قحط دمشق
یوں تو نئے زمانے کے فیض احمد فیض کی طرح پرانے زمانے کے شیخ سعدی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑ ی حقیقت عشق نہیں ہے۔ لیکن شیخ سعدی نے اسے یارو ں کے لیے تسلیم کیا ہے اور فیض احمد صاحب نے اپنے لیے۔ پھر سعدی میں اس حقیقت کے اثبات سے کرب پیدا ہوتا
غالب اور نیا آدمی
پتا نہیں کہ روس اور روسو میں فقط لفظی مشابہت ہے یا دونوں میں کوئی معنوی تعلق بھی ہے۔ لیکن میں یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ جس تہذیب کی ابتدا میں روسو نے فرد کی بےپایاں آزادی اور عظمت کے ترانے گائے تھے، وہ روس میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ کر فرد کی مکمل نفی
ابہام کیوں؟
اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں میرے تیسرے مضمون کو پڑھ کر، جو نظیر صدیقی کے حوالے سے لکھا گیا تھا، میرے دوست احمد ہمدانی نے کہا کہ اس مضمون میں تم موضوع زیربحث سے ہٹ گئے ہو۔ ان کے ا س اعتراض نے ضروری کر دیا کہ میں تینوں مضمونوں کے ربط کو واضح کر دوں۔ قصہ
خواب نما کے خواب
آنکھیں یہاں نہیں ہیں۔ ہاں آنکھیں یہاں نہیں ہیں۔ مرتے ہوئے ستاروں کی اس وادی میں۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ قمر جمیل کو میں برسوں سے جانتا ہوں۔ لیکن خواب نما کی پشت پر ان کی جو تصویر چھپی ہے اسے دیکھ کر کچھ ایسا لگا
انسانی رشتے اور غالب
(غالب کی انانیت اور اس مضمون کا متن یکساں ہے) یہ تو سبھی کہتے ہیں کہ غالب کے مزاج میں انانیت تھی۔ لیکن کسی شاعر کو اس کے مزاج کی بنا پر پسند یا ناپسند کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اسے لمبا یا ٹھگنا ہونے کی بنا پر مطعون کریں یا سرا ہیں۔ شاعری
ابہام اور بازی گری
اپنے پچھلے مضمون ’’ابہام کیوں؟‘‘ میں، میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ، (۱) ابہام کیوں پیدا ہوتا ہے؟ (۲) ابہام کی فنی ضرورت کیا ہے، یعنی دانستہ ابہام کی غرض وغایت کیا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میں نے یہ عر ض کیا تھاکہ ابہام کے دورخ ہیں۔ ایک قاری کی طرف،
شخصیت۔۔۔ انا اور لاشعور (۲)
میں نے شخصیت، انا اور لاشعو ر کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا ہے، حتی الامکان غیرعلمی انداز میں لکھا ہے۔ شاید میں چاہوں بھی تو علمی انداز اختیار نہیں کر سکتا۔ وجہ ظاہر ہے ایک تو میں علمی آدمی نہیں ہوں۔ دوسرے علمی آدمیوں کو دیکھ کر ڈر بھی گیا ہوں۔ شوکت
ابلاغ کا مسئلہ
میرے اس مضمون کا محرک ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مضمون ’’ابلاغ سے علامت تک‘‘ ہے۔ ایسی صورتوں میں جب ایک لکھنے والا بہ یک وقت خالق اور ناقد ہوتا ہے، کبھی کبھی ایک مزے دار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، جس کی طرف ہربرٹ ریڈ نے اشارہ کیا ہے۔۔۔ یعنی کبھی کبھی خالق
شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۱)
پچھلے باب ’’شخصیت۔۔۔ مثبت اور منفی‘‘ میں، میں نے لکھا ہے کہ شخصیت پسندیدہ تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے۔ لیکن یہ پوری سچائی نہں ی ہے، پوری سچائی شایدہمارے ہاتھ بھی نہیں آتی، کیوں کہ یہ تو صرف جرمن فلسفیوں کے پاس ہوتی
آشوب آگہی
غالبؔ آشوب آگہی کا شاعر ہے، غالبؔ تفکر کرتا ہے، غالبؔ دیدۂ بینا رکھتا ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار فقرے ہم روز پڑھتے ہیں، بولتے اور لکھتے ہیں۔ ایک روز جب مولانا محمد ایوب دہلوی مرحوم نے مجھ سے کہا کہ مجھے باون برس غور کرتے ہو گئے ہیں اور آج تک یہ نہ
شخصیت اور اسلوب
’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں ہم نے اپنے وجود کے بارے میں تین امتیازات قائم کیے تھے، (۱) جیسے کہ ہم ہیں (۲) جیسا ہم تصور کرتے ہیں اور (۳) جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں یا کرتے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا کہ جیسے ہم ہیں، وہ ہماری ذات ہے۔ باقی ہم جیسا سوچتے ہیں
اقبال کا ایک شعری کردار۔۔۔ شاہین
اقبال کے ایک شارح نے لکھا ہے کہ اقبال کو بچپن میں کبوتروں کا بڑا شوق تھا۔ لیکن ان کے کبوتر جب اُڑان پر آتے تو باز، شکرے وار بحریاں ان کے کبوتر پکڑ لے جایا کرتے جس سے اقبال کو بڑا دکھ ہوتا تھا۔ بعد میں بچپن کا یہی تجربہ ان کا تصورِ شاہین کی شکل میں برآمد
اقبال اور اردو شاعری کی چار قسمیں
اقبال کی شاعری کا اگر ہم اردو کے دوسرے شعرا کی شاعری سے مقابلہ کریں تو ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اقبال جذبات اور محسوسات کے بجائے خیالات کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس بنیادی بات سے کئی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی اجازت ہو تو آیئے اس بات پر غور کریں
اقبال کا ایک شعری کردار۔۔۔ ابلیس
نٹشے نے کہا ہے، ’’خدا نے چھہ دن کام کیا اور ساتویں دن آرام۔ ساتویں دن کی اس کاہلی سے شیطان پیدا ہوا۔‘‘ خدا کا شیطان کاہلی سے پیدا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نٹشے کا شیطان ضرور کاہلی سے پیدا ہوا ہے۔ کاہلی، بدہیئتی، بے وقعتی اور وہ ساری چھوٹی چھوٹی بدصورت باتیں
اقبال، اقبالیات اور ہم
اقبال کے بارے میں ہماری تنقید دل میں چور رکھ کر بات کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ کچھ اقبال میں ہے، کچھ ہمارے ماحول میں اور کچھ خود ہمارے اندر۔ اقبال ہمارے ماضی قریب کی عظیم ترین علمی، فکری اور سیاسی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ ان ی شاعری اردو کے شعری
آئینہ زدودن
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی کسی بھی مخلوق کی طرح انا بھی بیکار نہیں۔ اس کا ایک اپنا مقام، حیثیت اور مقصد ہے۔ ہم شخصیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیوں کہ عمل ہی نہیں کر سکتے۔ انا شخصیت بناتی ہے۔ وہ ارادہ کو متحرک کرتی ہے۔ اور جبلّتوں کی گاڑی کو
انداز بیاں اور
ہم کہہ چکے ہیں، اسلوب شخصیت کا عطر ہے، جوہر ہے، یہ بجلی کی وہ رو ہے جو شخصیت سے پھوٹ رہی ہے۔ اپنے اسلوب میں ہم پورے کے پورے موجود ہوتی ہیں۔ یہ ہماری پوری سوانح عمری ہوتا ہے، اسلوب کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی زندگی بسر کی ہے اور کیسی۔ ہم خود کو
شخصیت اور فریضۂ قربانی
پچھلے ابواب میں ہم نے دکھایا ہے کہ شخصیت کیا ہے، کیسے بنتی ہے، اس کا بننا کیوں ضرور ہے۔ اس کے بننے کے لیے کیا کیا جائے۔ اس کا انا سے کیا تعلق ہے۔ وہ اصولِ حقیقت سے کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ شعور اس کے بننے میں کیا حصہ لیتا ہے۔ وہ کب مثبت اور کب منفی ہوتی
مسائل تصوف
گزشتہ باب میں ہم نے غالبؔ کی فکر پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ فکر کیا ہے، کسی کا اپنے تجربات کو جوڑنا، اور جوڑ کر ایک کل بنانا ہے۔ تجربات میں سب کچھ شامل ہے، یعنی جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، جو کچھ مشاہدے میں آیا اور جو کچھ ہم نے مطالعہ کیا یا دوسروں سے سیکھا۔
شخصیت۔۔۔ انا اور شعور (۱)
اب تک ہم شخصیت کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے، (۱) شخصیت ذات سے الگت ہوتی ہے اور اس پر ایک اضافہ ہے۔ (۲) شخصیت اس تصور سے پیدا ہوتی ہے جو ہم اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں۔ (۳) یہ تصور ہمیشہ پسندیدہ اور خوش آیند ہوتا ہے جسے
اقبال کی ایک داخلی تصویر
آپ نے اقبال کی وہ تصویر دیکھی ہے جس میں وہ شال اوڑھے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے، کچھ مراقبے کی کیفیت میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ یہ تصویر آپ کو کیسی لگتی ہے؟ اس میں اقبال آپ کو شاعر، فلسفی، مفکر نظر آتے ہیں یا مردِ عمل؟ اس تصویر کا مردانِ عمل کی تصویروں سے مقابلہ
اقبال کا جہاد
مجھے ریاضی کی ایک پیچیدہ مساوات حل کرنی ہے۔ یہ کام عقل کا ہے یا عشق کا؟ عشق والے تو شاید ریاضی کا نام سن کر دردِ سر میں مبتلا ہوجائیں، اس لیے میرے خیال میں یہ کام عقل کا ہے۔ ایک دوست نے مجھ سے ایک مشکل مسئلے میں مشورہ مانگا ہے۔ میں اس کا جواب دینا چاہتا
ایک سچے شاعر کا المیہ
سچا شاعر ہمیشہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہوتا ہے جو طوفان میں گھرا ہوا ہو، اس کی کشتی ٹوٹ چکی ہو اور تیرنے کے سہارے کے لیے ایک تختہ بھی نہ ہو۔ کوہ پیکر موجیں اس کے وجود کو اُتھل پتھل کر رہی ہوں اور وہ اپنے جسم و روح کی ساری قوتوں کے ساتھ گردابِ فنا سے نکلنے
شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۲)
پچھلی مرتبہ ہم نے ’’شخصیت اور اصول حقیقت‘‘ کے عنوان کے تحت بتایا تھا کہ بچہ جس پسندیدہ تصور کے تحت عمل شروع کرتا ہے، وہ اس کی انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ انا جب اس عمل کو بار بار دہرانے لگتی ہے تو شخصیت بننے لگتی ہے مگر انا کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر قدم
اقبال کا سورۂ اخلاص
خودی اقبال کی شاعری کا سورۂ اخلاص ہے۔ یہ ان کی فکر کا جوہر اور پیغام کا خلاصا ہے۔ خودی کو سمجھے بغیر آپ اقبال کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس موضوع پر اقبال کے شارحین نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے بغیر ان کی فکر کی تفہیم ممکن نہیں تھی۔ لیکن میرا موضوع اقبال کی فکر
اقبال اور صدائے کن فیکون
اقبال نے اپنے ایک شعر میں مشرق و مغرب کے فرق میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ مشرق سکون پرست ہے جب کہ مغرب حرکت و تغیر کا قائل ہے۔ چنانچہ مغرب میں زمانہ ہر لحظہ دگرگوں رہتا ہے جب کہ مشرق میں صدیوں تک تبدیلی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک اس فرق کی
شاعری اور شخصیت
جدت پسند لوگوں میں ٹی ایس ایلیٹ کے ایک فقرے کی بڑی دھوم ہے جس میں ایلیٹ نے کہا ہے کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں ہے بلکہ شخصیت سے فرار ہے۔ اس موضوع پر اتفاق سے ایک مذاکرہ بھی سننے میں آیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی بات کی دھوم مچانے کے لیے اسے سمجھنا ضروری
اقبال کا معجزۂ فن
محمد حسن عسکری نے کسی جگہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کو اردو شاعری کا تاج محل کہا ہے۔ تاج محل سے میرا ذہن خود بہ خود دلّی کی شاہی مسجد کی طرف جاتا ہے اور یاد آتا ہے کہ اقبال نے اسے مسجدوں کی دلہن کہا تھا۔ یہ مسجد واقعی ہے بھی دلہن کی طرح۔ نفیس، نازک، خوب صورت۔
موچی دروازے کی شاعری
لکھے پڑھے لوگوں کے سامنے کسی مقبولِ عام چیز کا ذکر کرنا ہے تو بدمذاقی، لیکن فیض صاحب نے اقبال کو موچی دروازے کا شاعر کہہ ہی دیا ہے تو میں بھی اپنی استبذال پسندی کے اظہار سے کیوں ڈروں۔ اقبال موچی دروازے کے شاعر تھے یا جو کچھ بھی تھے، بعض لوگوں کو ان کی
عندلیب گلشن ناآفریدہ
اپنے ایک مضمون ’’غالبؔ اور نیا آدمی‘‘ میں، میں نے لکھا تھا کہ غالبؔ ہماری تہذیبی شکست و ریخت کا نمائندہ ہے اور جب تک اس تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہا کو پہنچ کر ختم نہیں ہو جائے گی یا ہماری تاریخ کا نیا تہذیبی دور شروع نہیں ہوگا۔ بیسویں کیا ہر صدی غالبؔ
فرزند آذر
غالبؔ کی شخصیت پر ہم اپنے خیالات واضح طور پر بیان کر چکے ہیں، اس شخصیت نے اس کی شاعری، اسلوب، فن، فکر پر عصریت پر کیا اثر ڈالا۔ یہ بھی ہم تفصیلاً دکھا چکے ہیں۔ ایک بار ان خیالات کا خلاصہ کر لیجیے، (۱) غالبؔ کی شخصیت بہت بڑی ہے مگر اتنی بڑی نہیں جتنی
شخصیت۔۔۔ مثبت اور منفی
اپنے پہلے باب ’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں، میں کہہ چکا ہوں کہ شخصیت ’’ذات‘‘ کے تصور کو کہتے ہیں۔ ذات ایک نامعلوم اکائی ہے جس کی وسعت، عمق اور بلندی ناقابلِ پیمائش ہے، ہم اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ ’’ہے‘‘ کیا ہے، کیسی ہے، اس کا ہم علم نہیں
غالب کی انانیت
یہ تو سبھی کہتے ہیں کہ غالبؔ کے مزاج میں انانیت تھی، لیکن کسی شاعر کو اس کے مزاج کی بنا پر پسند یا ناپسند کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اسے لمبا یا ٹھنگنا ہونے کی بنا پر مطعون کریں یا سراہیں۔ شاعری میں اصل مسئلہ مزاج کا نہیں ہوتا کیوں کہ مزاج تو حالات