سلمان حیدر سن 1980 میں پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں شاعری کا آغاز کیا اور اکیسویں صدی کی پہلی دھائی میں پاکستان میں فوجی آمریت کے خلاف مزاحمتی نظمیں ان کی پہلی پہچان بنیں۔ مذہبی سماجی اور سیاسی رویوں اور رجحانات پر وہ طنزیہ نثر پاروں کی صورت میں بھی اظہار خیال کرتے رہے۔ یہ نثر پارے پاکستان کے ڈان اردو کی نیوز سائٹ پر شائع ہوئے۔ وہ اسلام آباد میں 'تھیٹر والے' کے نام سے قائم ایک تھیٹر گروپ کا حصہ رہے اور اس دوران انہوں نے تھیٹر ڈرامے لکھے اور ان میں اداکاری کی۔
وہ پاکستان کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں درس و تدریس کے پیشے سے منسلک تھے جب انہیں مذہبی اقلیتوں اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد اور گروہوں کے حمایت میں لکھنے کی پاداش میں ریاستی اداروں نے غیرقانونی تحویل میں لیا اور جبرا" لا پتا رکھا۔ اس دوران انہیں قید تنہائی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔ 2017 میں مذہبی گروہوں اور ریاستی اداروں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد انہوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا میں سیاسی پناہ لی۔ وہ کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ساتھ ریزیڈنٹ آرٹسٹ کے طور پر بھی منسلک رہے۔
شاعری میں ان کی پہچان ان کی نثری نظمیں بنیں جن کے موضوعات میں محبت کے ساتھ ساتھ جبر کے خلاف مزاحمت، بکھرتے ہوئے معاشرے میں بسنے والے انسان کی سماجی تنہائی اور نفسیاتی کشمکش شامل ہیں۔ ان کی شاعری سے ان کا ترقی پسندانہ طبقاتی اور تہذیبی شعور جھلکتا ہے۔ وہ محبت کو مزاحمت کی قدیم ترین شکل قرار دیتے ہیں جو سماجی طبقاتی اور گروہی حد بندیوں کو دھکیل کر ایک منقسم معاشرے کے تمام انسانوں کو اس وسیع تر دائرے میں شامل کرنا چاہتی ہے جہاں زندگی اپنی رنگا رنگی اور تنوع کے ساتھ اپنے تمام تر امکانات کو حقیقت بنتا دیکھ سکتی ہے۔ ان کی نظموں کی پہلی کتاب 'حاشیے پر لکھی نظمیں' کے نام سے سن 2021 میں شائع ہوا۔
آج کل وہ کینیڈا میں ماہر نفسیات کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری اور نثر نگاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔