والدین کے غلام سرور اور ادبی دنیا کے سرور ارمان پنجاب کے ضلع نارووال میں 4مارچ1953ء کو زرگر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اردو، سیاسیات اور پنجابی ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔ آج کل پاکستان کے معروف اشاعتی ادارے خالد بک ڈپو، اردو بازار لاہور سے وابستہ ہیں۔
آپ کے مجموعہ ہائے کلام ’’سرابِ مسلسل‘‘، ’’زنجیر بولتی ہے‘‘ ، ’’وہی آبلے مرے پاؤں کے‘‘ اور ’’ہمارے دکھ کتنے مشترک ہیں‘‘ منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ ضلع نارووال کے شعراء اور شاعرات کے تعارف اور نمونہ کلام پر مشتمل کتاب ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ مرتب کر چکے ہیں۔ روزنامہ دنیا اور نئی بات میں کئی سال تبصرہ ہائے کتب لکھتے رہے۔ فکری طور پر ترقی پسند ادبی تحریک سے منسلک ہیں۔
سیّد صغیر صفی کی لکھی ہوئی کتاب ’’سرور ارمان فکر و فن کے آئینے میں‘‘ اشاعت پذیر ہو چکی ہے۔ لیڈز یونیورسٹی میں ’’سرور ارمان کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایم فل کا تھیسز ہوچکا ہے جس کے محقق محمد افضل ہیں۔