شفیق الرحمان
افسانہ 2
اقوال 8
اگر اسی طرح ہر بات میں غریب سماج کو قصوروار ٹھہرایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کسی کو بخار چڑھے گا تو وہ منہ بسور کر کہے گا کہ یہ سماج کاقصور ہے۔ کوئی کمزور ہوا تو کہے گا کہ یہ سماج کی برائی ہے اور اگر کوئی بہت موٹا ہوگیا تو بھی سماج ہی کو کوسا جائے گا۔ نالائق لڑکے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سماج کی کھوکھلی بنیادوں کو قرار دیں گے۔ یہاں تک کہ گالیاں بھی یوں دی جائیں گی کہ ’’خدا کرے تجھ پر سماج کا ظلم ٹوٹے۔‘‘
اکثر حضرات افسانے کو پڑھنے سے پہلے صفحات کو جلدی سے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر انہیں کہیں سماج کا لفظ نظرآجائے تو وہ فوراً افسانہ چھوڑدیتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ یہ کیوں؟ تو جواب ملتا ہے، ’’جناب اس کا پلاٹ تو پہلے ہی معلوم ہوگیا۔ یقین نہ ہو تو سن لیجیے!‘‘ اس کے بعد وہ پلاٹ بھی سنادیں گے جو قریب قریب صحیح ہی نکلے گا۔
یہ مرد ایورسٹ پر چڑھ جائیں، سمندر کی تہ تک پہنچ جائیں، خواہ کیسا ہی ناممکن کام کیوں نہ کرلیں، مگر عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ بعض اوقات ایسی احمقانہ حرکت کر بیٹھتے ہیں کہ اچھی بھلی محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور پھر عورت کادل۔۔۔ ایک ٹھیس لگی اور بس گیا۔ جانتے ہیں کہ حسد اور رشک تو عورت کی سرشت میں ہے۔ اپنی طرف سے بڑے چالاک بنتے ہیں مگر مرد کے دل کو عورت ایک ہی نظر میں بھانپ جاتی ہے۔
عجیب سی بات ہے کہ لوگ موٹے تازے آدمیوں کو محبت سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ تصور میں لاہی نہیں سکتے کہ ایک انسان جس کا وزن اڑھائی من سے زیادہ ہو جس کی دو ٹھوڑیاں ہوں، جس کی توند طلوع ہو رہی ہو، اس کے دل میں بھی محبت کا جذبہ سماسکتا ہے۔ عموماً یہی سوچا جاتا ہے کہ اس سائز اور اس نمبر کے آدمی ہمیشہ کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک فربہ خاتون کو سریلی آواز میں دردناک گانا گاتے دیکھ کر بجائے رونے کے ہنسی آتی ہے اور دل میں یہی خیال آتا ہے کہ اب یہ گانا گاکر فوراً ایک بھاری سا ناشتا تناول فرمائیں گی اور چند ڈکاریں لینے کے بعد مزے سے سوجائیں گی۔ اٹھیں گی تو پھر کھائیں گی۔