شہاب لکھنوی کے اشعار
دیار غیر میں لٹتے تو کوئی بات نہ تھی
لٹے وطن میں تو صدمہ ہوا نہ جانے کیوں
سامنے محبت کے ہیچ ہے سیاست بھی
جب دماغ تھک جائے دل سے کام لے اے دوست
کرو گناہ محبت تمام عمر شہابؔ
خدا کی دی ہوئی نعمت بتوں کے کام آئے
نالۂ بلبل سے غنچوں کے کلیجے پھٹ گئے
گلستاں والے سمجھتے ہیں کہ گل خنداں ہوئے
مے خانۂ ہستی میں مفلس کی جوانی کیا
اک لغزش مستانہ دو چار قدم جیسے
اور بڑھتے تو خدائی کا بھی دعوے کرتے
خیر گزری کہ یہ بت رہ گئے بت خانے میں