شاہد کبیر
غزل 22
نظم 1
اشعار 17
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تیرا کوچہ ترا در تیری گلی کافی ہے
بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 5
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی یہ نذرانہ تیرا بھی ہے میرا بھی اپنے غم کو گیت بنا کر گا لینا راگ پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی کون ہے اپنا کون پرایا کیا سوچیں چھوڑ زمانہ تیرا بھی ہے میرا بھی شہر میں گلیوں گلیوں جس کا چرچا ہے وہ افسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی تو مجھ کو اور میں تجھ کو سمجھاؤں کیا دل دیوانہ تیرا بھی ہے میرا بھی مے_خانہ کی بات نہ کر واعظ مجھ سے آنا جانا تیرا بھی ہے میرا بھی جیسا بھی ہے شاہدؔ کو اب کیا کہیے یار پرانا تیرا بھی ہے میرا بھی