تمام
تعارف
ای-کتاب505
مضمون54
افسانہ4
اقوال24
انٹرویو10
شعر1
غزل20
نظم17
آڈیو 1
ویڈیو 20
گیلری 22
رباعی9
بلاگ2
شمس الرحمن فاروقی کے اقوال
دنیا کی نگاہوں میں تو میری پہچان ایسے نقاد کی ہے جس نے ادب کے ہر میدان میں تنقید کا حق ادا کیا ہے لیکن جس کے خیالات نے لوگوں کو گمراہ بھی کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا جسے گمراہی قرار دیتی ہے میں اسے راہ مستقیم سمجھتا ہوں۔
جب تعلیم کے نام پر خواندگی کی توسیع ہونے لگتی ہے تو معیار میں زبردست انحطاط پیدا ہوتا ہے۔
اردو ایک چھوٹی زبان ہے اور عمر بھی اس کی بہت کم ہے۔ اس کے بولنے والوں کی کوئی سیاسی قوت بھی نہیں ہے۔ جیسی کہ عربی بولنے والوں کی ہے۔ لیکن پھر بھی اردو اس وقت دنیا کی چند ایک زبانوں میں سے ایک ہے جو حقیقی طور پر بین الاقوامی ہیں۔
ادب میں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ محسوس کی ہوئی باتیں ہی لکھی جائیں۔ ادب تو زبان کا معاملہ ہے۔ زبان میں جو اظہار ممکن ہے وہ ادب کا اظہار ہو سکتا ہے۔
شعر اس لئے برتر ہے کہ وہ زبان کا بہتر، زیادہ حساس اور نوکیلا استعمال کرتا ہے۔
بے تکلف ہو جانے کے بعد میں بہت کم پردے کا قائل ہوں لیکن بے تکلف ہونے میں مجھے خاصی دیر لگتی ہے۔
ادیب کو کسی سیاسی یا غیر ادبی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسی پابندی اظہار کی آزادی کی راہیں روک دیتی ہے۔
میں تخلیق کو تنقید سے افضل مانتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تنقیدی تحریر کی زندگی کئی باتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تنقید اپنی جگہ پر جامد ہوتی ہے۔ اس کے معنی زمانے کے ساتھ بدلتے نہیں لیکن تخلیق کی نوعیت حر کی ہے، زمانے کے ساتھ اس کے معنی اور معنویت دونوں بدل سکتے ہیں، لہٰذا تنقید ایک محدود کارگذاری ہے، چاہے اس میں کتنی ہی چمک دمک کیوں نہ ہو اور چاہے اس کے بارے میں کتنے ہی جلسے کیوں نہ منعقد ہوں اور کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کئے جائیں!
ادب زندگی کا اظہار کرتا ہے اور زندگی کا ایک عمل ہے۔ اس کے لیے یہ اعلان کرنا ضروری نہیں کہ ادب کا تعلق زندگی سے ہے۔
فن پارے کی کوئی تعبیر حتمی اور آخری نہیں ہوتی، لہٰذا کوئی تنقید حرف آخر نہیں ہو سکتی۔
جو لوگ کہتے ہیں شمس الرحمن فاروقی سماجی عناصر اور سماجی شعور کے عناصر کو ادب سے خارج کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں نے در اصل مجھے پڑھا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ میں تو ہمیشہ سے یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ میں تو ادب کی خود مختاری اور ادیب کی آزادی کا قائل ہوں۔ جب میں ادیب کی آزادی کا قائل ہوں تو اس لیے یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ تم یہ نہ لکھو اور اور وہ نہ لکھو۔
شعر کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ زندگی سے اپنے تعلق یا اپنے انسان پن کو ثابت کرنے کے لیے سڑک پر جاکر جھنڈا اٹھائے اور نعرہ لگائے۔
اپنے ہم عصروں میں مجھے وہی لوگ زیادہ اچھے لگے جن کے لیے ادب سازشوں کا کھیل نہیں بلکہ زندگی سے بھی ماورا ایک حقیقت ہے۔
ترقی پسندوں نے غزل کو سامراجی نظام کی یادگار کہہ کر اس لئے برادری سے باہر کرنے کی کوشش کی کہ انہیں خوف تھا کہ اگر اس سخت جان لونڈیا کو گھر میں گھسنے دیا گیا تو اچھا نہ ہوگا۔
ادب کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھانا اور منطقی ربط کے ساتھ ان کا جواب دینا نقاد کا پہلا کام ہونا چاہیے۔
رسم الخط وہ چیز ہوتی ہے جو آسانی یا کسی اور وجہ سے مروج ہونے کی بنا پر adopt کر لیا جاتا ہے۔ زبان کی جان اس میں نہیں ہوتی۔
اگر میری کوئی نسل ہے بھی اور وہ ’مسلم‘ یا ’عرب‘ نسل ہے، تو وہ میرے ہندوستانی عقائد اور محسوسات کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے بغیر اور ہندوستان کے باہر میرا کوئی وجود نہیں۔
فکشن نگار کی حیثیت سے میرا اپنا تجربہ بھی یہی ہے کہ میں اپنے کردار یا وقوعے کو جیسا بنانا چاہتا ہوں، ہمیشہ ویسا بنتا نہیں ہے۔ میرے سامنے سامع بھی نہیں ہے جس کے دباؤ کے تحت میں کردار اور واقعے کو آزاد نہ ہونے دوں۔ اس طرح متضاد سی صورت حال بنتی ہے کہ میں اپنے فکشن کا خالق ہوں بھی اور نہیں بھی ہوں۔۔۔